مضامینہفتہ کی اہم خبریں

شورکوٹ میں انسانیت سوز سانحہ

شیعہ نیوز:شورکوٹ سانحے نے ہر باضمیر انسان کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا۔ کالعدم سپاہ صحابہ کے دہشتگردوں نے دن دیہاڑے شیعہ نوجوان کو کلہاڑے کے وار سے قتل کر دیا۔ واضح رہے کہ مقتول پر جھوٹا توہین صحابہ کا مقدمہ درج تھا اور چار ماہ بعد کوئی جرم ثابت نہ ہونے پر عدالت کی جانب سے باعزت بری کر دیا گیا تھا۔ تکفیریوں کی جانب سے یہ پیش آنے والا پہلا سانحہ نہ تھا۔ ماضی قریب میں ایسے بے شمار سانحات وقوع پذیر ہوچکے ہیں۔ آئیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ توہین صحابہ کی آڑ میں محبانِ اہلِ بیت کا یوں آئے روز بے دردی سے قتل کر دیا جانا اور بے بنیاد الزامات کی آڑ میں حقیقت میں کس تکفیری فکر کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ تکفیریت ایک ایسا ناسور ہے، جو اپنے منحوس اثرات کے ساتھ بڑی تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ تکفیری فکر ہے کیا اور اس کے حقیقی مقاصد کیا ہیں، آئیں حقائق کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

مگر اِس سے پہلے یہ بات واضح کر دی جائے کہ شیعہ مرجعیت کی جانب سے یہ بات علی اعلان بہت دفعہ کہی جاچکی ہے کہ اہلِ سنت ہماری جان اور نفس ہیں۔ اِن کا دفاع کرنا واجب ہے اور کسی کے مقدسات کی توہین کرنا شرعا حرام ہے۔ مگر اس سب کے باوجود بے بنیاد الزامات کی آڑ میں ہمارا خون صدیوں سے بہایا جا رہا ہے، کبھی ہمارے جوانوں کو ہراساں کیا جاتا ہے اور کبھی غیر آئینی طور پر ماورائے عدالت لاپتہ کر دیا جاتا ہے، جن کے خانوادہ سالوں سے اُن کی واپسی کے منتظر ہیں، جن کا واحد جرم حبِ آلِ رسول ہے۔ یہ حق کی طاقت اور ہماری قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہر ملک پر حسینؑ کی حکمرانی ہے۔ کوئی بازاروں میں نکل کر عزاداری سید الشہداء کرتا ہے اور کوئی گھر میں سبطِ پیامبر کا غم برپا کرتا ہے۔۔ کوئی خون بہاتا ہے اور کوئی اشک۔۔ غرضیکہ ہر وہ آنکھ اشک بار رہتی ہے، جس میں اپنے نبیﷺ کی تعظیم کی حیا باقی ہے اور ہر وہ دل خون روتا ہے جس پر "لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ” کا اثر باقی ہے

پہلی بات تو واضح ہے کہ تکفیری فکر اگرچہ نئی نہیں ہے اور اِس کا اپنا تاریخی پسِ منظر بھی ہے، لیکن کچھ برسوں سے استکبار کی سازشوں، خطے کے بعض ممالک کی مالی شاہ خرچیوں اور امریکہ، برطانیہ اور صہیونی ریاست کے جاسوسی اداروں کی منصوبہ سازی کی بدولت اس تکفیری فکر کو دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے اور روز بروز اس کو تقویت مل رہی ہے، جس کا بنیادی مقصد ایک خاص مکتب کے حرث و نسل کو ہلاک کرنا ہے۔ دنیائے اسلام جسے اپنی پوری قوت و طاقت صیہونی ریاست کی سازشیں ناکام بنانے کے لیے صرف کرنا چاہیئے تھی، وہ آج مجبور ہے کہ اُن مصائب و مسائل میں مصروف ہو جائیں، جو استکبار نے عالمِ اسلام میں کھڑے کیے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ تکفیر کو زیر ِبحث لانا ایسی بات ہے، جو عالم اسلام کے علماء، عقلا اور مفکرین پر ٹھونس دی گئی ہے اور دشمن نے ارادی طور پر اسے عالمِ اسلام میں داخل کیا اور ہمیں مجبوراً اس پر توجہ دینا پڑتی ہے۔

ہمیں اپنی قربانیوں کا قطعاً رنج نہیں بلکہ شہادتیں تو ہمارا افتخار ہیں۔ ان کی وجہ سے ہماری تاریخ زندہ ہے اور ہمیشہ انہی حادثوں نے ہمیں توانائی بخشی ہے۔ ہمیں افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارا دشمن تاریخ سے نابلد ہے، وہ بنو امیہ اور بنو عباس کی تقلید پر تو اتر آیا ہے مگر اس نے ایک لحظہ کے لیے بھی ہماری تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا۔ ہم اُس دور میں بھی زندہ رہے، جب فاتح کربلا اور اسیرِ شام کی مظلومیت کا نوحہ سنانے کے جرم میں ہمیں پسِ زنداں دھکیلا جاتا رہا، جب حضرت زینب سلام علیہا کے خطبے زندہ رکھے جانے کی پاداش میں ہمیں دیواروں میں چنوایا جاتا رہا، یاحسینؑ کی صدا بلند ہونے کے عوض ہمارے گھر جلائے گئے، حق و باطل کی تمیز کرانے پر علماء کرام کا قتلِ عام کیا گیا اور محمدﷺو آلِ محمدﷺ کے مشن کو زندہ رکھنے والے مورخین کے ہاتھ قلم کیے گئے۔ حسینیت زندہ باد اور یزیدیت مردہ باد کا پرچار کرنے والے کربلا کے سفیروں کے سروں سے مقتل سجائے گئے۔ اِن سب قربانیوں کے باوجود ہمیں معلوم ہے کہ ہمارا دشمن فطرت کے ہاتھوں مجبور ہے۔ محمدﷺ کو روایتی انداز میں مان کر آلِ محمد کا قتل اُس کی سرشت میں شامل ہے۔

وہ بطخ کے بچے کی طرح ہے، جو انڈے سے نکل کر فوراً پانی کی طرف رخ کرتا ہے۔ ہمارا دشمن بھی بظاہر مسلمان کے گھر میں جنم لیتا ہے، مگر وہ فطرت کے طفیل آلِ محمد کی مخالفت کی راہ اختیار کرتا ہے۔ ہمارے سینے ظلم کے آگے بطور دیوار کام آتے ہیں۔ ہم خنجر یا گولی سے ڈرنے والے نہیں، مگر تاریخ سے بھٹکے ہوئے نادان دشمن سے بس اتنا کہتے ہیں کہ وہ ہمارے سینے چاک کرنے سے پہلے تاریخ کا دامن کھولے، تعصب کی عینک اتارے اور ہمارا تعارف پڑھے، ہم کون ہیں؟ کن کے سفیر ہیں؟ تاریخ کو ہم نے کیسے زندہ رکھا اور کتنے جغرافیے بدلے۔ ہم نہ نسب سے شرمندہ ہیں، نہ تاریخ سے۔۔۔ ہمارے قبیلے کے ششماہی بچے کا تبسم ہزاروں کی فوج پہ غالب آیا ہے۔ شامِ غریباں کے جلے ہوئے خیموں کی راکھ کی پرواز سے محلات لرزے ہیں، ہمارے پسِ گردن بندھے ہوئے ہاتھوں سے بادشاہوں کے تخت کانپے ہیں اور ہماری صدائے حق سے مقتل اور زندان سہمے ہیں۔

حسینؑ تم نہیں رہے تمہارا گھر نہیں رہا
مگر تمہارے بعد ظالموں کا ڈر نہیں رہا
مدینہ و نجف سے کربلا تک ایک سلسلہ
ادھر جو آگیا وہ پھر ادھر ادھر نہیں رہا
صدائے استغاثہ حسینؑ کے جواب میں
جو حرف بھی رقم ہوا وہ بے اثر نہیں رہا
صفیں جمی تو کربلا میں بات کھل کر آگئی
کوئی بھی حیلہ نفاق کارگر نہیں رہا
بس ایک نام، اُن کا نام، اُن کی نسبتیں
جز ان کے پھر کسی کا دھیان عمر بھر نہیں رہا
کوئی بھی ہو، کسی طرف کا ہو، کسی نسب کا ہو
جو تم سے منحرف ہوا وہ معتبر نہیں رہا
تحریر: سویرا بتول

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button