مضامینہفتہ کی اہم خبریں

خط امام کا مسافر علی اوسط

تحریر: علامہ سید حسن ظفر نقوی

1982ء وہ سال تھا، جب میں نے پہلی بار علی اوسط (سید اوسط علی) کو دیکھا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب مجھے مذہبی قومیات میں کوئی نہیں جانتا تھا، کیونکہ میں ایک بائیں بازو کا ’’سرخا‘‘ تھا، لیکن مسجد سکینہ گودھراں کیمپ کا واقعہ اور پھر اسی پس منظر میں ہونے والے واقعات مجھے لاشعوری طور پر مذہبی قومیات کے دھارے میں لانے کا باعث بنے۔ ایک جگہ اپنے کچھ دوستوں کے توسط سے ایک میٹنگ میں شرکت کا موقع ملا تو میں نے ایک نوجوان کو دیکھا (اس وقت میں بھی نوجوان ہی تھا) جو انتہائی جذباتی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ہی دانشمندانہ طریقے سے گفتگو کر رہا تھا۔ مجھے یہ جذباتی جوان اپنے جیسا ہی لگا، میں نے اپنے دوستوں سے اس جوان کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ آئی ایس او کراچی کا رہنماء علی اوسط ہے (نام تو سید اوسط علی ہے مگر قومیات میں علی اوسط ہی کے نام سے شہرت حاصل کی تو میں بھی اب یہی نام استعمال کروں گا)، مجھے اس جوان کے بیان اور دلائل کے انداز میں شفافیت اور خلوص بھی نظر آگیا۔ مگر! نوجوان ہونے کی بنا پر اس وقت کچھ اور لوگوں کی رائے کو تسلیم کر لیا گیا اور بہرحال جو فیصلے کئے گئے، بعد میں ان کا نقصان بھی سامنے آگیا۔

سینکڑوں گھر جلے، لوٹے گئے، امام بارگاہیں، مساجد جلائی گئیں، کئی سو ملت کے افراد زندانوں میں ڈالے گئے، کوڑے لگائے گئے۔ افسوس ان سب مظالم کا نہیں ہوا، کیونکہ ظاہر ہے یہ تو ان راہوں میں چلنے والوں کے ساتھ ہوتا ہی ہے، بلکہ افسوس اس بات کا تھا کہ اس سب کے باوجود قومیات کے کچھ کرتا دھرتا ان سب حالات سے کچھ سیکھنے کو تیار نہ تھے۔ میں دیگر افراد کے ساتھ جیل سے رہا ہوا تو اب مجھ پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ مجھ پر واجب ہے کہ میں اپنے کردار کا تعین کروں، اس لئے جیل میں کچھ برادران سے تعلق بننے کے بعد ایک راہ نظر آئی۔ اب ساری صلاحیتوں کو صرف اور صرف ملت اور مذہب کے وقار کی بحالی کے لئے استعمال کرنا چاہتا تھا اور یہی بات باعث بنی کہ علی اوسط اور ان کے کچھ رفقاء سے قربت پیدا ہوئی۔ ان کے دوستوں میں میرے بھی کچھ یونیورسٹی کے ساتھی تھے، لہذا تعلق بنتا چلا گیا۔ میں کچھ مہینوں کے بعد مدرسہ جعفریہ میں سے ہوتا ہوا قم جا پہنچا۔

اس سارے عرصے میں علی اوسط سے رابطہ برقرار رہا۔ جب بھی تعطیلات میں پاکستان آتا تھا، کبھی رضویہ (ناظم آباد) میں کسی مشترکہ دوست کے گھر، کبھی مارٹن روڈ اور کبھی دوسری جگہوں پر نشستوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا اور یوں ہمارے مزاج میں ہم آہنگی بھی پیدا ہوتی گئی۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کبھی اختلاف رائے نہیں ہوتا تھا، اختلاف رائے ہوتا تھا اور کبھی کبھی بہت زیادہ ہوتا تھا، مگر دونوں جانب خلوص نیت ہونے کی وجہ سے یہ بھی جدائی کا باعث نہیں بنا۔ خاص طور پر ایک علمی شخصیت کے بارے میں (جن کے لئے میری رائے مختلف تھی، کیونکہ وہ اسیری کے زمانے میں میرے ساتھ تھے اور میں ان کی بہادری کو بڑے قریب سے دیکھ چکا تھا) میرا علی اوسط اور دیگر ساتھیوں سے شدید اختلاف تھا، مگر میں نے اکثریت کی رائے کا احترام کیا تھا اور کچھ دنوں کے بعد حقیقت حال سامنے آئی تو دوستوں نے بڑی فراخ دلی سے میری رائے کو درست قرار دیا، یہی وجہ تھی کہ ہم سب کو ایک دوسرے پر زبردست اعتماد اور بھروسہ تھا۔

علی اوسط جذباتی مقرر ضرور تھے، مگر اندھے مقلد نہیں تھے۔ وہ خط امام کے سچے پیروکار تھے، اول روز سے آخری سانس تک ثابت قدم رہنے والوں میں سے تھے۔ 1992ء سے لے کر 2012ء تک یہ بیس سال ملت کے لئے شدید آزمائش کے سال تھے (اگرچہ اب آنے والے مستقبل قریب کا زمانہ پہلے سے زیادہ آزمائشوں والا نظر آرہا ہے) اس تمام عرصے میں جتنی بھی تحریکیں وجود میں آئیں، اس میں علی اوسط ہر تحریک کا صرف حصہ نہیں تھے بلکہ ہراول دستے کے سپاہی تھے۔ میں نے اور دیگر ساتھیوں نے ہمیشہ علی اوسط کی رائے اور مشوروں کو محترم جاتا اور کتنے ہی مقامات پر ان کی رائے کو مقدم رکھا۔ میرے اور علی اوسط کے مشترکہ دوست گواہی دیں گے کہ علی اوسط ہر سخت مرحلے میں میرے ساتھ کھڑے رہے، چاہے جیل بھرو تحریک ہو یا جب میں نے خود لاپتہ لوگوں کے لئے چلنے والی تحریک کو زندہ رکھنے کے لئے گرفتاری دی تھی، ہر مرحلے میں علی اوسط میرے بازو بنے رہے، یہاں تک کہ ایک سخت موقع پر وہ میرے پاس نہیں تھے بلکہ پاکستان سے جاچکے تھے، مگر پھر بھی وہ میرے پاس تھے اور صبح و شام ان کے پیغامات مجھے ملتے رہتے تھے۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ علی اوسط انقلاب کی راہوں میں کہاں تک سفر کرتا رہا تھا، وہ مجاہد فی سبیل اللہ تھا، اس لئے دشمنان اسلام اور دشمنان انقلاب کی آنکھوں کا خار تھا۔ اس نے دشمنان دین کو ضرب کاری لگائی تھی، وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھا کہ جن لوگوں نے انقلاب کے نام کو کیش کرایا اور بعد میں مفادات حاصل کرکے مختلف حیلوں بہانوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ علی اوسط ان لوگوں میں تھا جو نہیں کہتے تھے کہ انقلاب نے ہمیں کیا دیا بلکہ وہ یہ کہتے تھے کہ انقلاب کو ہم نے کیا دیا؟ وہ اتنا عظیم مجاہد تھا کہ ساری دنیا کی شیطانی ایجنسیاں اس کے پیچھے پڑی ہوتی تھیں۔ علی اوسط نے اپنی اور اپنے خاندان کی زندگیوں اور اپنے بچوں کے مستقبل کو داؤ پر لگا کر قربانیاں دیں۔ اپنے گھر، اپنے شہر اور پنے خاندان سے دور ہو جانا اتنا آسان نہیں، لیکن اگر ہدف عظیم ہو تو پھر ہجرت کے سفر کی مصیبتیں آسان ہو جاتی ہیں۔ اس سفر کے مصائب و آلام میں بھی لذت محسوس ہوتی ہے۔ یہ لذت کیا ہوتی ہے۔ یہ تو ابوذر جانتے ہیں، عمار یاسر اور میثم تمار جانتے ہیں۔ مجھے علی اوسط کی دوستی پر فخر ہے، میں جانتا ہوں کہ اب بھی علی اوسط کا خاندان خاص طور پر اس کے اہل و عیال فخر کریں گے کہ ان کا رشتہ کس عظیم انسان سے ہے۔

میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہمیشہ کی طرح کچھ زبانیں خنجر سے زیادہ تیز دھار کے ساتھ زخم لگانے کی کوشش کریں گی، لیکن یہ اللہ کے دوستوں کا خاصہ ہے کہ ہر مؤمن ان کا دوست ہوتا ہے اور ہر منافق ان سے حسد اور کینہ رکھتا ہے۔ مشکل ترین حالات میں، میں نے علی اوسط کو بہترین ساتھی پایا، بے خوف اور صابر، بہادر اور ظالموں کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے والا۔ مجھے اس کی اور اسے میری یہی بات پسند تھی۔ ایک بات اور جب وہ حالات کی وجہ سے یہاں سے چلا گیا تو پھر بھی اس نے پاکستان کے حالات پر گہری نظر رکھی، اکثر ’’ابو عمار‘‘ کے نام سے بہترین تجزیاتی تحریریں ملتی تھیں۔ شروع میں مجھے علم نہ تھا کہ ان بہترین تحریروں کا خالق کون ہے؟ مگر کچھ عرصہ بعد جب پیغام رسانی کا سلسلہ بحال ہوا تو میرے علم میں یہ بات آئی کہ ابو عمار کٹھن اور سخت راہوں میں میرا ساتھ دینے والا ’’علی اوسط‘‘ ہے۔ وہ ایک آزاد انسان کی طرح سر اٹھا کر جیا اور کسی کا احسان لئے بغیر جوار حضرت معصومہ (ع) میں گہری اور آرام کی نیند سوگیا۔ شاید سفر کرتے کرتے بہت تھک گیا تھا، سلام ہو اس پر، اس کے ماں باپ پر اور اس کے اہل و عیال پر۔ وَالسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَىٰ (القرآن) "اور سلامتی اس کیلئے ہے جو سیدھی راہ پر چلے۔”

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button