
عراقی کردستان میں قبائل کے درمیان جھڑپیں، افواہیں اور زمینی حقائق
شیعہ نیوز: خورشید ہرکی اور ایل گوران کے درمیان زمین کے تنازع نے قبائلی تصادم کی صورت اختیار کی؛ اسرائیلی سازش یا بغاوت کی قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔
عراقی کردستان میں حالیہ قبائلی جھڑپ کو بعض حلقوں میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے، حتی کہ بعض افراد نے اسے اسرائیل کی کردستان کو تقسیم کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ تاہم معتبر ذرائع کے مطابق اصل واقعہ محض زمین کے ایک تنازع کا نتیجہ ہے جو خورشید ہرکی اور مشیر آغا ایل گوران کے درمیان ہوا۔
مقامی ذرائع کے مطابق خورشید نے مشیرآغا کو قتل کی دھمکی دی تھی جس پر مشیرآغا نے عدالت سے رجوع کیا اور خورشید کے خلاف گرفتاری کا حکم جاری کروایا۔ جب کردستان عراق کی پولیس فورس اسے گرفتار کرنے پہنچی تو فریقین میں جھڑپ شروع ہوگئی۔
یہ بھی پڑھیں : پاک چائنہ تاجران اتحاد ایکشن کمیٹی کے وفد کی صدرایم ڈبلیوایم جی بی آغا علی رضوی اور اپوزیشن لیڈر کاظم میثم سے ملاقات
خورشید، ہرکی قبیلے کا سردار نہیں بلکہ جوہرآغا اس قبیلے کی سربراہی کرتا ہے، لیکن خورشید اپنی دولت، شہرت اور میڈیا میں سرگرمی کے باعث ایک بااثر شخصیت ہے۔ یوٹیوب پر اس کے تیسرے نکاح سے متعلق ویڈیوز سے لے کر سیاسی بیانات اور جلسے عام تک، اس کی موجودگی نمایاں طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔ خورشید نے "غیرت ایلی” جیسے نعروں سے اپنے حامیوں کی تعداد بڑھائی ہے۔
خورشید کا کردستان ڈیموکریٹک پارٹی اور بارزانی خاندان سے گہرا تعلق بھی حکومتی اقدامات میں رکاوٹ بن رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جھڑپ طول پکڑتی جا رہی ہے۔ تاہم امکان یہی ہے کہ معاملہ جلد ختم ہو جائے گا اور ان لوگوں کا جھوٹ بے نقاب ہوگا جو اسے بغاوت یا انقلاب قرار دے رہے ہیں۔
قابلِ ذکر ہے کہ ہرکی قبیلہ کردوں کا ایک بڑا قبیلہ ہے جس کا دائرہ ایران سے عراق اور جزوی طور پر شام تک پھیلا ہوا ہے۔ ان کا مرکزی علاقہ شمالی کردستان عراق میں ہے اور ان کی زبان کرمانجی ہے۔
اس جھڑپ میں شامل دوسرا قبیلہ گوران، ہرکی کے مقابلے میں کہیں چھوٹا ہے۔ عراق کے شمالی علاقوں میں آباد گوران قبیلہ کرمانشاہ کے گورانوں سے نسبی طور پر جڑا ہوا ہے، تاہم یہ سنی مذہب رکھتے ہیں جبکہ کرمانشاہ کے مغربی علاقوں میں آباد گوران اہلِ حق عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں۔
مورخین کا اندازہ ہے کہ صفوی دور میں اردلان حکمرانوں نے گوران قبیلے کو ان کے آبائی علاقے اورامان سے بے دخل کیا اور وہ عثمانی علاقوں میں ہجرت کر کے موجودہ شمالی کردستان عراق میں آباد ہو گئے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ لوگ ابتدا ہی سے سنی تھے یا بعد میں اہلِ حق کے بجائے سنی مذہب اختیار کر گئے، تاہم لسانی طور پر یہ اب بھی یارسانی گورانوں سے قدرے مشابہت رکھتے ہیں۔