ٹرمپ، الیکشن اور ختم ہوتا یونی پولر نظام
شیعہ نیوز:کرونا وائرس کے پھیلاو اور امریکی پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد امریکہ شدید بحران کا شکار ہو چکا ہے۔ نسل پرستی کے خلاف شروع ہونے والے مظاہرے امریکہ کی گذشتہ پچاس سالہ تاریخ میں بے مثال ہیں۔ ان مظاہروں میں ماضی سے ہٹ کر سیاہ فام اور سفید فام شہریوں میں تعاون اور ہم آہنگی دیکھی جا رہی ہے۔ یوں شدید سماجی اور اقتصادی بحران کے شکار امریکی معاشرے میں حکومت کی جانب سے موثر اقدامات انجام دینے کی راہ میں بھی رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے۔ دوسری طرف امریکہ کی دو بڑی سیاسی جماعتیں، ریپبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی قومی اور بین الاقوامی ایشوز پر شدید اختلافات کا شکار ہیں۔ ان اختلافات نے بھی ملک میں موجود بحرانوں پر کنٹرول حاصل کرنے کا عمل دشوار بنا ڈالا ہے۔
امریکہ میں مناسب راہ حل سے عاری مشکلات کی اکثریت وائٹ ہاوس کی ناکارہ مدیریت کا نتیجہ ہے۔ اس قسم کی مشکلات نے امریکی معاشرے میں سیاسی، اقتصادی، سماجی اور حتی نسلی خلیجوں کو جنم دیا ہے۔ امریکہ میں گذشتہ چند ماہ سے جاری عوامی مظاہرے محض پولیس کی جانب سے سیاہ فام شہریوں کے ساتھ نسل پرستانہ رویوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ درحقیقت ملک کے ظالمانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک قسم کی سول نافرمانی کی تحریک ہے۔ یہ تحریک دھیرے دھیرے انتہائی منظم انداز میں قومی اور بین الاقوامی اہداف کے حصول کی جانب گامزن ہو چکی ہے۔ امریکی معاشرے زیادہ تر دنیا کے دیگر حصوں سے آنے والے مہاجرین پر مشتمل ہے۔ ان مہاجرین کا تعلق مختلف نسلوں، زبانوں، ثقافتوں اور ادیان سے ہے۔ ایسے معاشرے میں گہری سماجی اور ثقافتی خلیج کا موجود ہونا ایک فطری امر ہے۔
مسئلہ اس وقت زیادہ خراب ہوتا ہے جب ملک پر حکمفرما سفید فام سرمایہ دار طبقہ ان فطری فاصلوں کو اپنے تعصب آمیز رویوں سے مزید شدت بخشتا ہے۔ امریکہ پر حکمفرما نظام معاشرے میں موجود مختلف طبقات کے درمیان امتیازی سلوک اپنا کر ان سماجی، اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی دراڑوں کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یوں ظاہر ہوا ہے کہ اندرونی عدم استحکام اور عوامی ناراضگی امریکی معاشرے کے سماجی ڈھانچے کا باقاعدہ حصہ بن گئی ہے۔ گذشتہ چند صدیوں سے باقی رہنے والے ان فاصلوں کا نتیجہ موجودہ دور میں انہائی گہری خلیجوں کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ یہ خلیجیں ماضی میں سرمایہ دارانہ نظام کی اقتصادی شان و شوکت کے سائے میں چھپی ہوئی تھیں اور ایک حد تک معاشرے کے مختلف طبقات میں اطمینان کا احساس بھی پیدا ہو چکا تھا۔
دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان عوامی مظاہروں کے مقابلے میں انتہائی مضحکہ خیز حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑے پیمانے پر جسم فروشی اور جوئے کے مراکز قائم کئے ہیں جس کی وجہ سے کیتھولک فرقے سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنماوں نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ لہذا یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کے حالیہ صدارتی الیکشن میں جو امیدوار بھی کامیاب جائے وہ ملک میں جاری انارکی اور سماجی کشمکش پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو پائے گا کیونکہ اس کی وسعت اور گہرائی ناقابل تصور ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی احمقانہ خارجہ پالیسیوں کے باعث امریکہ پر عالمی برادری کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔ اگر امریکہ کے صدارتی الیکشن میں جو بائیڈن بھی کامیاب ہو جاتے ہیں تب بھی بین الاقوامی سطح پر یہ اعتماد قابل بحال نہیں ہو گا۔
امریکہ کو درپیش ایک اور بڑا چیلنج اس کی خارجہ پالیسی میں عدم استحکام ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی مدت صدارت میں امریکہ کو ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کیا ہے جس کی خارجہ پالیسی شدید تزلزل کا شکار ہے اور کسی نظم و ضبط کی پابند نہیں ہے۔ اس قسم کی خارجہ پالیسی سے ہر لمحہ سب کچھ انجام پانا ممکن ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے "فرسٹ امریکہ” کا نعرہ لگایا ہے۔ اس نعرے کی روشنی میں انہوں نے بین الاقوامی ایشوز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امریکی مفادات کو پہلی ترجیح دی ہے۔ ان کی یہ یکہ تازیاں عالمی برادری حتی امریکہ کے قریبی ترین اتحادی ممالک کی امریکہ سے دوری کا باعث بنی ہیں۔ یورپی یونین کو شدید تنقید کا نشانہ بنانا، عالمی اداروں پر اعتراض کرنا، عالمی معاہدوں سے دستبرداری اور عالمی قوانین کی پامالی ڈونلڈ ٹرمپ کی ان یکہ تازیوں کے کچھ نمونے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی چار سالہ کارکردگی نے روس اور چین جیسی عالمی طاقتوں کو بھی امریکہ سے دور کر دیا ہے۔ اس کا واضح نتیجہ سابق سوویت یونین کے زوال اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا پر حکمفرما ہونے والے یونی پولر نظام کا خاتمہ ہے۔ اس وقت عالمی نظام ملٹی پولر سسٹم کی جانب آگے بڑھ رہا ہے۔ حتی عالمی طاقت کے لحاظ سے دوسرے درجے کے ملک قرار پانے والے ممالک بھی اس حقیقت کو درک کر چکے ہیں کہ امریکہ اور عالمی برادری پر مسلط کردہ امریکی نظام زوال کی جانب گامزن ہے۔ براعظم ایشیا میں نئی طاقتیں ابھر کر سامنے آ رہی ہیں۔ دنیا کے مختلف حصوں میں نئے مقامی اتحاد تشکیل پا رہے ہیں۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر بننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو امریکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد شدید ترین بحرانی دور میں داخل ہو جائے گا۔
تحریر: محمد امین