ٹرمپ جان لے، سید علی خامنہ ای صرف ایران نہیں عالم اسلام کے رہبر ہیں، مولانا ارشاد علی
شیعہ نیوز : مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کا ایک گفتگو میں کہنا تھا کہ یہ امریکہ کی گیدڑ بھبکیاں ہیں، امریکہ ایران کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ایران کے پاس ایمان کی طاقت ہے، ان کے پاس نظریہ اور ایسا رہبر موجود ہے، جس سے امریکہ کو خطرہ ہے۔ مگر افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض عرب ممالک امریکہ کی نمک حلالی میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ وہ ایران کیخلاف جنگ چاہتے ہیں۔ اگر امت مسلمہ کا یہ حال ہو تو انسان گلہ کس سے کرے۔؟
مولانا ارشاد علی کا تعلق ضلع ہنگو سے ہے،وہ اسوقت مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں، اس سے قبل ایم ڈبلیو ایم ضلع ہنگو کے سیکرٹری جنرل کے طور پر بھی ذمہ داری ادا کرچکے ہیں، وہ جامعۃ العسکریہ ہنگو میں درس و تدریس کے عمل سے وابستہ رہے ہیں، مولانا ارشاد علی ضلع ہنگو کی فعال شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔
سوال: دہشت گردی سے شدید متاثرہ صوبے خیبر پختونخوا میں امن قائم کرنیکا کریڈٹ کسے دیتے ہیں۔؟
مولانا ارشاد علی: ﷽، بلاشبہ خیبر پختونخوا دہشت گردی سے بری طرح متاثر رہا، اس امن کے پیچھے ہماری قوم خاص طور پر اہل تشیع کی بہت قربانیاں ہیں، یہاں افسوسناک طور پر ہر طرح سے لوگوں کو قتل کیا گیا، خیبر پختونخوا میں اہل تشیع نے سب سے زیادہ اس قتل و غارت گری اور دہشت گردی کا سامنا کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دہشت گردی کو ختم کرنے میں ہماری پاک فوج اور سکیورٹی فورسز نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ تاہم عوام نے بھی بھرپور طریقہ سے افواج کو سپورٹ کیا اور آج ہم امن کی فضاء میں سانس لے رہے ہیں۔ مگر ہم اپنے شہداء کو ہرگز نہیں بھولے، انہوں نے وطن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، لیکن دہشت گردوں اور ان کے آقاووں کے سامنے سر نہیں جھکایا۔
سوال: دہشت گردی کے بعد خیبر پختونخوا میں اہل تشیع کو اب کیا مسائل درپیش ہیں۔؟
مولانا ارشاد علی: جو مجموعی طور پر سب عوام کو مسائل درپیش ہیں، اس سے ہٹ کر کہوں گا کہ جیسا کہ ہنگو کے علاقہ شاہو خیل میں اب تک ہمارے ہزاروں دربدر لوگ کئی سال گزرنے کے باوجود آباد نہیں ہوسکے اور نہ ہی تباہ شدہ سینکڑوں گھروں سمیت مساجد اور امام بارگاہوں کو تعمیر کیا گیا۔ اس کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان میں کوٹلی امام حسین ؑ کا مسئلہ ہے، اس کے علاوہ وہاں اب بھی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے۔ علاوہ ازیں پاراچنار ضلع کرم میں بھی ہمارے لوگوں کی زمینوں کے مسائل ہیں، جنہیں حل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
سوال: کیا آپکی جماعت نے ان مسائل پر حکومت سے بات چیت کی۔؟
مولانا ارشاد علی: جی بالکل، باقاعدہ ملاقاتیں اور بات چیت ہوئی ہے، انہوں نے ہمارے قائدین کو یقین دہانی کرائی ہے کہ مسائل کو حل کیا جائے گا۔ ہمیں اس حکومت سے کافی امید ہے کہ وہ ان مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے گی۔ عوام کے عمومی مسائل بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں، تاہم ان مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل ہونا چاہیئے۔
سوال: قبائلی اضلاع کے خیبر پختونخوا میں انضمام کو آپکی جماعت کس نگاہ سے دیکھتی ہے۔؟
مولانا ارشاد علی: میں سمجھتا ہوں اس سے قبائلی علاقوں کی پسماندگی دور کرنے، امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے اور عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں مدد ملے گی، فاٹا میں کئی کالے قوانین نافذ تھے، جو وہاں کے عوام کیلئے مشکلات پیدا کرتے تھے، اس کے علاوہ ملکی حالات کا بھی تقاضا تھا کہ ان علاقوں کو سیٹل ایریا میں شامل کیا جائے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ قبائلی عوام سے کئے گئے وعدے پورے کئے جائیں اور وہاں ترقی کے نئے دور کا آغاز کیا جائے۔
سوال: مختلف اپوزیشن جماعتیں حکومت کیخلاف ہوچکی ہیں، اسکو جمہوری عمل کہیں یا احتساب سے بچنے کی کوششیں۔؟
مولانا ارشاد علی: میرے خیال میں دوسری بات زیادہ ٹھیک ہے، ان جماعتوں نے اپنے دور اقتدار میں ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا، نواز شریف اور زرداری خود جیل میں ہیں اور اپنی کرپشن کو بچانے کیلئے اپنے بچوں سے تحریکیں چلوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملک میں بلاامتیاز احتساب ہونا چاہیئے، لوٹی ہوئی دولت کو واپس لیا جائے اور مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے، تاکہ آئندہ کسی کو قومی دولت لوٹنے کی ہمت بھی نہ ہو۔ نیب کو کسی دباو میں آئے بغیر یہ کارروائیاں جاری رکھنی چاہئیں، میں سمجھتا ہوں کہ ان چوروں کو تو بہت پہلے ہی جیل میں ہونا چاہیئے تھا۔
سوال: آپکے خیال میں امریکہ کا ایران کیخلاف جارحانہ موڈ کس طرف اشارہ ہے۔؟
مولانا ارشاد علی: یہ امریکہ کی گیدڑ بھبکیاں ہیں، امریکہ ایران کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ایران کے پاس ایمان کی طاقت ہے، ان کے پاس نظریہ اور ایسا رہبر موجود ہے، جس سے امریکہ کو خطرہ ہے۔ مگر افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض عرب ممالک امریکہ کی نمک حلالی میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ وہ ایران کیخلاف جنگ چاہتے ہیں۔ اگر امت مسلمہ کا یہ حال ہو تو انسان گلہ کس سے کرے۔؟
سوال: امریکہ کی آیت اللہ خامنہ ای جیسی شخصیت پر پابندی ایران کو پریشر میں لانے کا نفسیاتی حربہ ہے یا کچھ اور۔؟
مولانا ارشاد علی: امریکہ اس وقت ایران کے ردعمل کو دیکھ کر پریشان ہے اور بوکھلاہٹ کا شکار ہے، ٹرمپ کو نہیں معلوم کہ سید علی خامنہ ای صرف ایران کے ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے رہبر ہیں، ان کیخلاف اس قسم کی بیوقوفانہ حرکت خود امریکہ کیلئے جگ ہنسائی کا سبب بنے گی۔ رہبر معظم کے اثاثے تو پوری دنیا کو معلوم ہیں۔
سوال: امریکہ، ایران کشیدگی پر پاکستان کو کس قسم کا کرداد ادا کرنیکی ضرورت ہے۔؟
مولانا ارشاد علی: میں سمجھتا ہوں کہ حکومت پاکستان کو کھل کر برادر اسلامی ملک ایران کی حمایت کرنی چاہیئے، کیونکہ پاکستانی قوم ہرگز امریکہ کا ساتھ نہیں دے گی، حکومت پاکستان کو اس مسئلہ میں غیر جانبدار رہنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ امریکہ کی خطہ سے ٹھیکیداری ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔ چین، روس کی طرح پاکستان کو بھی اس حوالے سے مضبوط اور واضح مؤقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان عالم اسلام میں ایک اہم مقام رکھتا ہے اور واحد اسلامی ایٹمی قوت بھی ہے۔ لہٰذا پاکستان کا اس صورتحال میں کوئی بھی کردار خاصی اہمیت کا حامل ہوگا۔