ترک مذہبی رہنما فتح اللّٰہ گولن امریکا میں انتقال کر گئے
شیعہ نیوز: سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر تصدیق کی گئی ہے کہ مذہبی رہنما فتح اللّٰہ گولن کچھ عرصے سے علیل تھے اور گزشتہ شب اسی اسپتال میں انتقال کر گئے ہیں، جہاں وہ زیرِ علاج تھے۔
ترکیہ کے معروف مذہبی رہنما فتح اللّٰہ گولن امریکا میں انتقال کر گئے۔ ترک میڈیا کے مطابق ترک صدر طیب اردوان کی حکومت کے ناقد فتح اللّٰہ گولن امریکا میں قیام کے دوران 83 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ اس حوالے سے ان کے قریبی ذرائع نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مذہبی رہنما فتح اللّٰہ گولن کچھ عرصے سے علیل تھے اور گزشتہ شب اسی اسپتال میں انتقال کر گئے ہیں، جہاں وہ زیرِ علاج تھے۔
مذہبی رہنما فتح اللّٰہ گولن کون تھے؟
فتح اللّٰہ گولن کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا، ان کے والد امامِ مسجد تھے جبکہ والدہ بچوں کو قرآن پڑھاتی تھیں۔ انہوں نے ایک مدر سے تعلیم حاصل کی اور مسجد کے امام اور خطیب کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ واضح رہے کہ ترکیہ میں مساجد کے لے مقرر کردہ امام اور جمعے کا خطبہ دینے والے خطیب حضرات سرکاری ملازم ہوتے ہیں۔ فتح اللّٰہ گولن خاصہ عرصہ ازمیر میں خطیب رہے اور انہوں نے وہیں سے اپنے دینی دعوتی کام کا آغاز کیا۔
یہ بھی پڑھیں :صدر مملکت کی منظوری سے 26ویں آئینی ترمیم کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری
فتح اللّٰہ گولن مشہور ترک صوفی اسکالر بدیع الزماں سعید نورسی کے پیروکار تھے، انہوں نے سعید نورسی پر ایک کتاب بھی لکھی۔ انہوں نے 70ء کی دہائی میں طاقت ور اسلامی تنظیم ’حزمت‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق فتح اللّٰہ گولن پر 2016ء میں ترک صدر طیب اردوان کے خلاف بغاوت کا الزام لگا تھا۔ فتح اللّٰہ گولن 1999ء سے امریکا میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے، تاہم 2017ء میں بغاوت کے الزام کے پیشِ نظر ان سے ترک شہریت چھین لی گئی۔ اردوان کی حکومت نے امریکا میں جلا وطنی اختیار کرنے والے مذہبی رہنما کی حوالگی کا بھی مطالبہ کر رکھا تھا۔
فتح اللّٰہ گولن پر الزام تھا کہ ان کی قیادت میں ان کی تنظیم حزمت نے صدر طیب اردوان کی حکومت کے خلاف ناکام فوجی بغاوت کا آغاز کیا۔ فتح اللّٰہ گولن پر الزام تھا کہ مذکورہ ناکام فوجی بغاوت کے دوران جنگی طیاروں، ٹینکوں اور ہیلی کاپٹروں کی کمانڈ ان کے ہاتھ میں تھی، اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش میں تقریباً 250 افراد مارے گئے تھے۔ فتح اللّٰہ گولن کسی زمانے میں ترک صدر اردوان کے اتحادی تھے، اس فوجی بغاوت کے بعد انہیں ریاست مخالف کے طور پر دیکھا جانے لگا تاہم انہوں نے ان الزامات کی مسلسل تردید کی۔ فتح اللّٰہ گولن اپنے آبائی ملک میں خاصے مقبول ہیں اور انہیں پولیس اور عدلیہ کی بھی حمایت حاصل رہی ہے۔