امت مسلمہ کی بڑھتی قربتیں اور پاکستان
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) امت مسلمہ کے دو اہم ممالک جمہوری اسلامی ایران اور سعودی عرب کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد امت مسلمہ کے مابین ایک خوشگوار تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے، وہ مسلم ممالک جو امریکہ اور اس کے حواریوں کے مفادات کی خاطر کئی سال سے ’’استعمال‘‘ ہوتے رہے، سعودیہ کی خارجہ پالیسی میں تاریخی تبدیلی کے بعد اپنی حکمت عملی پر نہ صرف نظرثانی کرنے پر مجبور ہوئے بلکہ استعماری طاقتوں کیخلاف مقاومتی بلاک میں شامل ممالک اور تحریکوں کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔
ایک وقت تھا کہ امریکہ اور اسرائیل کیخلاف صرف برادر اسلامی ملک ایران کھڑا تھا، انقلاب اسلامی کے وقوع پذیر ہونے کے بعد اس حوالے سے استعمار نے مسلم ممالک میں اس پروپیگنڈے کو تقویت دی کہ تہران کا امریکہ مخالف مزاحمتی موقف امت مسلمہ کے مفاد میں نہیں بلکہ محض اس کے ملکی مفادات کا مسئلہ ہے۔ تاہم وقت گزرنے کیساتھ ساتھ رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کا اصولی موقف اپنی اہمیت اور حقیقت کو منوانے میں کامیاب ہوتا گیا۔
ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی کے اقدام پر یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ ریاض یا اس کے اتحادی خلیجی و عرب ممالک امریکہ کی مخالفت میں آکھڑے ہوئے ہیں، تاہم یہ حقیقت ہے کہ اگر یہ مسلم ممالک واشنگٹن کے دشمن نہیں تو ویسے دوست بھی نہیں رہے۔ سعودیہ کے علاوہ ترکی، مصر اور یو اے ای کی پالیسی میں بھی واضح تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے، شام اور حوثی مجاہدین کی اپنی مخالفین کیساتھ بیٹھکیں اور بڑھتی قربتیں اس بات کا اشارہ ہیں کہ امریکہ کا مشرق وسطیٰ میں سجایا گیا کھیل اپنے انجام کو پہنچنے کے قریب ہے۔
یہ وہی صورتحال ہے کہ جس کے بارے میں ایران کی قیادت ہمیشہ سے بات کرتی آرہی تھی کہ ‘‘مسلم ممالک کے مابین موجود مسائل کو باہمی مذاکرات سے حل کیا جاسکتا ہے، امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھوں استعمال نہ ہوں، خدا اور قرآن کے احکامات کی طرف لوٹ آئیں۔ بہرحال دیر آید درست آید۔۔ اس خوشگوار فضاء کے جھونکے آہستہ آہستہ اپنی حدود بڑھا رہے ہیں، خطہ میں امریکہ کا اثر و رسوخ ہر گرزتے دن کیساتھ ساتھ کم ہوتا نظر آرہا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں آرمینیا کے وزیراعظم کی آیت اللہ خامنہ ای کو عید الفطر کی مبارکبادی
چین، روس، ایران، ترکی، سعودی عرب اور خطہ کے دیگر ممالک کئی معاملات پر بظاہر ایک پیج پر دکھائی دے رہے ہیں، خطہ سے سات سمندر پار سے استعمال ہونے والا ریمورٹ کنٹرول اپنی افادیت کھو رہا ہے، ایسے میں دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی قوت پاکستان کہاں کھڑا ہے۔؟ یہ سوال یقینی طور پر ہر محب وطن اور باشعور پاکستانی شہری کے ذہن میں ضرور ہوگا۔
وطن عزیز میں جاری سیاسی بحران سے قطع نظر اسلام آباد کی جارجہ پالیسی اب تک متزلزل اور مبہم ہے، اب جبکہ خطہ میں امریکہ مخالف ماحول بن چکا ہے، علاقائی طاقتیں مضبوط ہو رہی ہیں، پاکستان کے مقدر حلقوں کے پاس بہترین موقع تھا کہ وہ ان لمحات سے فائدہ اٹھائیں، تاہم محسوس یہ ہو رہا ہے کہ شائد ہماری پوزیشن اس وقت افغانستان سے بھی زیادہ کمزور ہے اور ہم کسی طور پر اب بھی واشگنٹن کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ اس صورتحال میں ان دعووں یا پھر الزامات کو تقویت ملتی ہے کہ ’’پاکستان میں موجودہ پی ڈی ایم کی حکومت کو لانے میں امریکہ کا کردار تھا، تاکہ وہ خطہ میں اپنا ایک مہرہ رکھے۔‘‘
پاکستان کے معاشی حالات کسی طور پر بھی علاقائی طاقتوں یا ہمسائیہ ممالک سے دور رہنے کی اجازت نہیں دیتے، چین اور روس شائد اسی وجہ سے اسلام آباد کے حوالے سے اب تک محتاط اور آگے بڑھ کر ساتھ دینے سے گریزاں ہیں کہ دیکھا جائے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، تاہم اس اونٹ کا اب درست سمت میں بیٹھنا ہوگا، اگر گذشتہ پجھتر سالہ غلطیوں کا ازالہ کرنا ہے تو پاکستان کے حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس یہ بہترین موقع ہے کہ ان خارجہ پالیسی کو آزاد، بیرونی طاقتوں کی ڈکٹیشن سے پاک اور محض ملکی، علاقائی اور امت مسلمہ کے مفادات کے مطابق ترتیب دیا جائے۔
امت مسلمہ میں خوشگوار تبدیلیوں کے بعد سے پاکستانی عوام میں بھی کئی امیدوں کی کرنیں جاگ گئی ہیں، وطن عزیز گو کہ اس وقت شدید اقتصادی اور سیاسی بحران کا شکار ہے، تاہم پھر بھی امت مسلمہ میں ایک خاص مقام رکھتا ہے، لہذا اسلام آباد کی سمت کا تعین اس صورتحال میں خاصی اہمیت کا حامل ہے۔
رپورٹ: سید عدیل زیدی