اتحاد امت اور شہید عارف الحسینی
کسی بھی تحریک کا محرِّک کسی ایک مُصلِح کی سوچ ہوا کرتی ہے۔ اس شخصیت کی یہی سوچ دنیا میں ہلچل مچا دیتی ہے۔ یہی سوچ انسانوں میں بیداری لے کر آتی ہے۔ یہی بیداری سبب بنتی ہے کہ ظلم کا تختہ الٹ دے۔ ظلم کی دنیا میں اس طرح کی سوچ رکھنے والوں کی سزا یا تو سر قلم کرنا ہے یا ملک بدر کرنا ہے۔ اہل معرفت اس سوچ کی حامل شخصیت کو مجدد یا مصلح کے نام سے پہچانتے ہیں، جو نظاموں میں ایک تحول ایجاد کرتی ہے اور قوموں کو جوڑتی ہے۔ وحدت ایجاد کرکے ایک عظیم مقصد کی طرف لیکر بڑھتی ہے۔ ان کا بنیادی ہدف ہی معاشرہ نامی مجموعے کو یکجا کرکے کمال حقیقی اور خلقت کے ہدف کے طرف لے کر چل پڑتی ہے۔ وہ حقیقت میں قائد، رہنماء اور رہبر ہوتا ہے۔
قائد، رہبر اور رہنماء اہل درد لوگ ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ خود کو آزمائشوں میں مبتلا کرکے قوم و ملت کا سوچتے ہیں، کیونکہ ”آزمائش“ درد کا سمندر ہے۔ جس میں وہی تیر سکتا ہے، جو اہل درد ہو۔ اہل درد کبھی خود غرض نہیں ہوسکتا۔ وہ تو انسانیت کی بھلائی چاہتا ہے۔ اہل درد کی خاصیت ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذاتی مصلحتوں کو قوم کے بڑے مفادات کے لئے قربان کرنے کا احساس بھی رکھتا ہے اور سلیقہ بھی“؛ کیونکہ اہل درد کا محور و مرکز خدا کی ذات ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے یہی چیز ہمارے اندر موجود نہیں ہے۔ اس مرکز سے جڑنے کے لئے ہمیں ہمہ وقت اپنے نفس کا محاسبہ کرنا چاہیئے۔ شہید حسینی نے جوانوں کو سب سے زیادہ اسی چیز کی طرف دعوت دی ہے۔ جب محور خدا کی ذات ہو تو وہاں مسلک و مذہب میں کوئی فرق نہیں ہے۔
پاکستانی معاشرے خصوصیات پر مبنی شخصیت شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی ذات تھی۔ جس کا اعتراف دوست تو دوست، دشمن بھی کھلے عام کرتا ہے۔ شہید اپنی شخصیت کو مٹا کر قومی وحدت، ملی تربیت، دشمن کے سازشوں کو بےنقاب کرنے میں اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کیا۔ ارشاد حسین ناصر ایک جگہ لکھتے ہیں کہ شہید قائد نے اپنے دور قیادت میں ملک کے کونے کونے میں جا کر لوگوں کی فکری، شعوری، مذہبی، اجتماعی، ملی تربیت و بیداری کیلئے دن رات ایک کیا اور مسلسل عوامی رابطہ کے ذریعے ان میں ایک درد، ایک احساس پیدا کر دیا۔
علامہ عارف الحسینی کی یہ خوبی کسی طور بھلائی نہیں جاسکتی کہ وہ اپنے ساتھ مختلف دورہ جات میں اہل سنت علماء کو بھی لے کر جاتے اور اتحاد کی فضا کو عوامی سطح پر نمایاں کرنے کی کوشش کرتے، جن لوگوں نے انہیں دیکھا ہے، وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ ان کا یہ عمل دکھاوا یا مجبوری نہیں تھی بلکہ وہ اتحاد بین المسلمین پر پختہ یقین رکھتے تھے اور امت کو ایک لڑی میں پرونے کے شدید خوہش مند تھے۔ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے پشاور کے مولانا عبدالقدوس اور جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ ملک اکبر ساقی تو اکثر ان کے ہمراہ دیکھے جاتے اور اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے برپا کانفرنسز میں نمایاں طور پر شریک ہوتے۔
مزید یہ بھی لکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے دور قیادت میں انہوں نے مختلف قومی و بین الاقوامی مسائل پر اپنا مؤقف بڑی صراحت کے ساتھ پیش کیا، انہوں نے پہلی بار اپنی ملت کو دوسری اقوام و ملل کے مقابل لانے کی جدوجہد کی اور 6 جولائی 1987ء کے دن مینار پاکستان کے وسیع گراؤنڈ میں عظیم الشان قرآن و سنت کانفرنس منعقد کرکے اپنی سیاسی طاقت و قوت کا بھرپور اظہار کیا اور ایک سیاسی منشور کا اعلان بھی کیا۔۔۔۔۔ آپ کے افکار پر عمل پیرا ہو کر ملت پاکستان کی ڈوبتی ناؤ کو کنارے لگایا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔
آپ کی شہادت کے بعد تعزیتی پیغام میں امام خمینی علیہ الرحمہ نے شہید علامہ عارف الحسینی کے افکار کو زندہ رکھنے کی بہت زیادہ تاکید کی۔ اگر ہمارے بزرگان امام کی وصیت پر عمل کرکے شہید کے افکار پر کام کرتے تو آج ملی وحدت کو پارہ پارہ ہوتے نہیں دیکھتے بلکہ قائد و اقبال کا خواب مکمل ہوچکا ہوتا۔ لیکن آج بھی اگر کام کریں تو دور نہیں ہے اور نہ ہی ناممکن ہے۔ قوم و ملت پھر اتحاد کو اتفاق کو راستے کا انتخاب کرکے ملک عزیز پاکستان کو کسی اور منزل تک پہنچا سکتے ہیں۔ یہاں قارئین کی خدمت میں شہید کے چند منتخب افکار پیش کرتے ہیں، شہید علامہ عارف الحسینی ایک درد مند ملت تھے، جنہیں اتحاد بین المسلمین کی پاکستان میں جاری تحریک کا سرخیل اور بانی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ کلمات و اقتباسات ان کی مختلف تقاریر سے حاصل کردہ ہیں، جو انہوں نے ملک کے مختلف حصوں میں عوامی اجتماعات میں کیں۔۔۔!
ہمارا پیغام اخوت:
وقت آگیا ہے کہ وحی الہیٰ کے ذریعے پہنچے ہوئے ہمارے عظیم پیغام حیات اسلام کی صداقتوں پر یقین رکھنے والے تمام انسان باہم متحد ہوکر اُٹھ کھڑے ہوں، تاکہ انسانوں کو فریب دے کر لوٹنے والی استعماری اور شیطانی قوتوں پر بھرپور ضرب لگائی جاسکے اور دنیا میں عدل و انصاف، الفت و محبت اور حقیقی امن و آشتی کی فضا قائم کی جاسکے۔ بندوں پر بندوں کی حکمرانی ختم کرکے فقط مالک حقیقی کی حکمرانی کا نفاذ ہی ان شہدائے راہ حق کی تمنا ہے اور یہ انسانی کامرانیوں کی منزل ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم پیغام شہداء کے امین بنیں اور ہر طرح کی قربانی دے کر اس امانت کی حفاظت کریں۔ وطن عزیز پاکستان میں حقیقی اسلامی معاشرے کا قیام ہماری اولین خواہش بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ اس مقصد کے حصول کیلئے میں ہر مسلمان محب وطن پاکستانی کو دعوت اتحاد عمل دیتا ہوں۔
آج اتحاد اُمت کی اشد ضرورت ہے:
آج کا مسلمان بیدار ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کو معلوم ہوچکا ہے کہ ہمارا مرکز اور ہماری بقاء صرف اور صرف اسلام سے ہے اور ہمیں اتحاد بین المسلمین کے جھنڈے تلے جمع ہو کر روسی اور امریکی گماشتوں کی سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔ آج مسئلہ شیعہ سنی کا نہیں ہے بلکہ اسلام و کفر کا مسئلہ درپیش ہے۔ مسلمان متحد ہوکر ہی قومیتوں کے بتوں کو توڑ سکتے ہیں۔ ہمیں ناصرف سازشی عناصر پر کڑی نظر رکھنا ہوگی بلکہ فسادات برپا کرنے والوں کے ہاتھ کاٹنا ہوں گے۔
وہ دن دور نہیں جب بین الاقوامی استحصالی قوتوں کو امت مسلمہ کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ ہوسکے گی:
اسلام کے دشمنوں پر عیاں کر دینا چاہیئے کہ فلسطین، لبنان، افغانستان، ہندوستان، اری ٹیریا اور دنیا کے دیگر ممالک میں مسلمانوں پر جو وحشت و بربریت کا بازار گرم کیا جا رہا ہے اور اسی طرح اسلامی جمہوریہ ایران اور لیبیا کے خلاف جو دیدہ و دانستہ اشتعال انگیز کارروائیاں کی جا رہی ہیں، وہ اس بات کی متقاضی ہیں کہ پوری امت مسلمہ ایک جسد واحد کی طرح اپنے تمام وسائل کے ساتھ دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے اور اگر ایسا ممکن ہوسکا اور ان شاء اللہ ایک دن ضرور ایسا ہوگا تو پھر کسی بین الاقوامی استحصالی قوت کو امت مسلمہ کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ ہوسکے گی۔ ہم آپ سے توقع رکھتے ہیں کہ آپ امت مسلمہ کی فلاح و بہبود کیلئے سرگرم عمل ہو جائیں گے اور باطل قوتوں کے خلاف ایک مشترکہ لائحہ عمل کو اپنانے کیلئے عملی اقدامات کی طرف توجہ فرمائیں گے، نہ یہ کہ بعض حکومتوں کے ایماء پر آپ اسلامی کانفرنس کی طرف سے ایسی کانفرنس کا انعقاد کروائیں، جو امت مسلمہ کے مفادات کو زک پہنچانے کے درپے ہو۔(اسلامی کانفرنس کے سیکرٹری جنرل شریف الدین پیرزادہ کے نام کھلا خط 21″فروری 1986ء”)
فروعی اختلافات اور مشترکہ دشمن:
شیعہ اور سنی مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے تاریخی اختلافات کو حدود میں رکھیں، ہمارے مشترکہ دشمن امریکہ، روس اور اسرائیل ہیں، جو ہمیں نابود کرنے کے درپے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ہم اپنے فروعی اختلافات کو بھلا کر اسلام کے دشمنوں کے خلاف مشترکہ مؤقف اختیار کریں۔ (شیعہ جامع مسجد بھکر میں خطاب "مارچ 1994ء”)
اتحاد و وحدت:
درحقیقت اپنے اپنے عقائد پر قائم رہتے ہوئے بھی زندگی میں مل جل کر رہا جاسکتا ہے۔ آخر یہ کیوں ضروری ہے کہ میں کسی کے یا کوئی میرے مذہبی جذبات مجروح کرے۔ اسلام میں اسی وجہ سے کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی ممانعت ہے کہ اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ نفرت ہی موجب فساد بنتی ہے، البتہ کسی کی دل آزاری کئے بغیر اپنے عقائد پر سختی سے کاربند رہنا اسلام میں بہت ضروری ہے۔ ایران میں شروع شروع میں بعض بیرونی طاقتوں نے کرد قبائل کو عقائد کی بنا پر بغاوت پر ابھارا، لیکن جب دوسری طرف سے ان کے مذہبی جذبات کے احترام کا وطیرہ اختیار کیا گیا تو شیعہ سنی اتحاد کی شاندار مثال دیکھنے میں آئی۔ (شہید باقر الصدر ؒ اور سیدہ بنت الہدیٰ کی چوتھی برسی کے موقع پر پیغامات "اپریل1984ء”)
پاکستان سب کا ہے:
پاکستان کے قیام کیلئے تمام مکاتب فکر کے مسلمانوں نے بھرپور جدوجہد کی ہے۔ آج کسی ایک مکتب فکر کے نظریئے کو دوسروں پر مسلط کرنے کا مقصد نظریہ پاکستان سے انحراف کے مترادف ہوگا۔ (بھکر میں عظیم الشان اجتماع سے خطاب "جولائی 1986ء”)
وقت کے تقاضے:
میں تمام مکاتب فکر کے مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وقت کے تقاضوں کا ادراک حاصل کریں، جو پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ مسلمان متحد ہوکر عالمی سامراج کے خلاف اپنا کردار ادا کریں۔ سامراجی قوتوں کی کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر موجود فروعی اختلافات کو ہوا دے کر انہیں کمزور کریں۔ (گلزار صادق بہاولپور میں ایک عظیم اجتماع سے خطاب "مارچ 1986ء”)
دشمن کی پالیسی اور شرعی فریضہ:
میں تمام مسلمانوں سے بار بار یہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہر ممکن طریقے سے امریکہ، روس اور اسرائیل کی اسلام دشمن پالیسیوں کی بھرپور مذمت اور ان سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے رہیں کہ یہ ان کا شرعی و ایمانی فریضہ ہے۔(گلگت، بلتستان کے دورے کے موقع پر خطاب "جون1986ء”)
تنگ نظری کی بجائے وسعت نظری:
بعض عناصر نے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے فتویٰ سازی کے کارخانے قائم کر لئے ہیں، تنگ نظری اہل تشیع میں ہو یا اہل تسنن میں، اس سے فقط اسلام کو نقصان پہنچے گا۔ فتویٰ سازی اور تعصب بیرونی جارحیت سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اس کا فائدہ صرف اسلام دشمن قوتیں ہی اُٹھا سکتی ہیں۔ دنیا بھر کے باضمیر اور حریت پسند مسلمان متحد ہوکر ہی سامراجی تسلط، تنگ نظری اور تعصب سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔ (لاہور میں قرآن و سنت کانفرنس سے خطاب6 "جولائی 1986ء”)
یہ چند نمونے ہیں، جو اس عظیم شخصیت کی فکر و نظر اور سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک ایسی شخصیت جو ظلم کے خلاف طوفان بن کر اٹھی، مظلوموں اور محروموں کے سروں پر تحفظ کی فضا بن کر چھائی، سامراجیت اور نجدیت پر بادل بن کر گرجی اور آمریت پر ٹوٹ کر برسی، استبداد و استحصال کے اندھیروں میں بجلی بن کر چمکی، عالم اسلام میں خوشبو بن کر پھیلی، ملت اسلامیہ کے دلوں میں اترئی اور دنیا بھر میں بکھری ہوئی یادوں کو تاریخ کے دامن میں سمو لیا، تاکہ زمانہ ان کے نقش پا کا رخ دیکھ کر منزلیں متعین کرے۔ لیکن کس کو معلوم تھا کہ امتوں اور ملتوں کو یکجا کرنے کا صلہ صحنِ مقتل میں لا کر چھوڑے گا۔ صحن مقتل میں بہایا گیا خون بھی یہی کہہ رہا ہے کہ آج بھی بزرگان قوم اور جوانان ملت اگر اس شخصیت کے بتائے ہوئے اور اختیار کئے ہوئے راستے پر چلے تو وہ دن دور نہیں ہے کہ سبز ہلالی پرچم لہرانے کا فیصلہ بھی سبز ہلالی پرچم کے زیر سایہ ہی ہوگا۔
تحریر: عارف بلتستانی