مضامینہفتہ کی اہم خبریں

ہم حسینی قوم ہیں

تحریر: محمد کاظم انبارلوئی

کہتے ہیں کہ جمہوریت یعنی "ہم” ممکن ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں فردیت کا بول بالا ہو وہاں جمہوریت کی بات کرنا محض ایک وہم و خیال ہے۔ مغربی فلسفیوں نے جمہوریت کا جو معنی و مفہوم بیان کیا ہے اس کے مطابق جمہوریت یعنی ایک ایسا "ہم” (اجتماعی تشخص) ایجاد کرنا جسے تمدن کے قیام کی بنیاد بنایا جا سکتا ہو۔ اس وقت مغربی دنیا پر پارسنز اور گڈنز کی ایسی "ہم” حکمفرما ہے جس کا سیاست دانوں نے مقابلہ بازی کے میدان میں تیاپاچہ کر ڈالا ہے۔ یہ "ہم” کمزوری، بڑھاپے اور موت کی جانب گامزن ہے۔ مغرب "آزادی” اور "جمہوریت” سے متعلق نظریات کی تعمیر نو نہیں کر سکتا۔ چین میں کنفیوشس کی ایسی "ہم” حکمفرما ہے جس کی جڑیں چینی عوام میں گذشتہ چند ہزار برس سے پائی جاتی ہیں۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے کنفیوشس کی تعلیمات کی روشنی میں چینی "ہم” کی نئی تعریف پیش کی ہے۔

چینی "ہم” کی اس نئی تعریف کی بنیاد پر اقتصادی ڈھانچے، پیداوار اور افادیت کی عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ دنیا چینی عوام کی جانب سے ایک ایسی نئی طاقت کے ظہور کا مشاہدہ کر رہی ہے جو عنقریب امریکہ اور یورپ کو پیچھے چھوڑنے والی ہے۔ ایران میں اسلامی جمہوریت کے ذریعے رونما ہونے والے اسلامی انقلاب نے سیاست کی عالمی شطرنج میں ایک نئی طاقت ظہور پذیر ہونے کی نوید دلائی۔ عالمی دانشوران اور سیاسی فلسفی اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے درپے تھے کہ ایرانیوں کی "ہم” کن بنیادوں پر استوار ہے۔ انہوں نے ابتدا میں دین اور جمہوریت کے اتحاد کو محال قرار دیا اور کہا کہ یہ دونوں ایک حکومت کی چھت تلے نہیں رہ سکتے۔ خاص طور پر جب اس نظام کے اندر اور باہر شدید دشمن موجود ہوں۔ لیکن وہ یہ حقیقت جان کر حیرت زدہ رہ گئے کہ یہ دونوں ایکدوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔

ایران میں رونما ہونے والا اسلامی انقلاب نے چار عشروں سے زیادہ اپنی سیاسی اور پاکیزہ زندگی کی بنیاد اسی حقیقت پر استوار کی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کفار اور منافقین کے علاوہ ہر چیز اس کے حق میں ثابت ہوئی ہے۔ آج دین کا اجتماعی پہلو دنیا بھر کے سیاسی فلسفیوں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ وہ مزید دین کو ریاستوں، حکومتوں اور عوام کی افیون قرار نہیں دیتے۔ آج دنیا کے دانشور حضرات اجتماعی سرمائے کی ان نظریاتی بنیادوں کا ازسرنو جائزہ لینے میں مصروف ہیں جو دینی متون میں پائی جاتی ہیں۔ دین سب سے زیادہ اجتماعی سرمایہ پیدا کر سکتا ہے۔ دین سے حاصل ہونے والے اجتماعی سرمائے میں جو طاقت اور غنا پایا جاتا ہے وہ دیگر منابع سے حاصل ہونے والے اجتماعی سرمائے سے قابل موازنہ نہیں ہے۔

دینی معاشرے میں اجتماعی سرمائے کی نمائش کا میدان مومنانہ زندگی ہے۔ گھرانے کو مرکزی کردار اور اہمیت حاصل ہونا، صلہ رحم، دینی اخوت، محبت، وحدت اور قومی ہم آہنگی، شورا، تعاون، دینی مرجعیت، نماز جمعہ اور جماعت جیسے شعائر الہی، حج وغیرہ ایک اسلامی دینی معاشرے کے اجتماعی سرمائے کا چھوٹا سا حصہ ہیں۔ خدا رحمت کرے شہید قاسم سلیمانی پر جنہوں نے ایک موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف رجز خوانی کرتے ہوئے تاریخی جملے ادا کئے اور ان میں اسلامی انقلاب کی بنیاد قرار پانے والے "ہم” کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: "ہم امام حسین ع کی قوم ہیں۔ ہم شہادت کی قوم ہیں۔ پوچھو، ہم نے بہت کڑے حالات گزارے ہیں۔ آو، ہم تمہارے منتظر ہیں۔ اس میدان کے مرد ہم ہیں۔ تم جانتے ہو یہ جنگ یعنی تمہارے تمام وسائل کی نابودی۔ ہم امام حسین ع کی قوم ہیں۔”

یہ رجز خوانی ایسے شخص نے کی جو 40 برس تک صحراوں، بیابانوں اور پہاڑوں میں دشمن کے مقابلے میں ڈتا رہا اور ہزاروں مجاہدین کی کمان کرتا رہا۔ یہ رجز خوانی ایسے شخص نے کی جو عراق، شام، لبنان، پاکستان اور افغانستان کی اقوام میں سے اصحاب امام حسین علیہ السلام پر مشتمل طاقتور فوج کا بانی تھا۔ اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کی بنیاد قرار پانے والے "ہم” کا مفہوم اس رجز خوانی سے واضح ہوتا ہے۔ حال ہی میں ولی امر مسلمین امام خامنہ ای نے اہلبیت ع عالمی اسمبلی کے اراکین سے ملاقات کے دوران فرمایا: "اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں کو یہ فخر حاصل ہے کہ انہوں نے استعمار کے سات سروں والے اژدہا کو پیچھے دھکیلا ہے اور اس کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا ہے۔” وہ طاقت جو آج عالمی استعمار کے سامنے سینہ سپر ہے دنیا بھر میں اہلبیت ع کی "ہم” ہے۔

لہذا امام خامنہ ای مدظلہ العالی نے مسلکی، قومی اور نسلی تشخص کو غیر حقیقی قرار دیتے ہوئے فرمایا: "عالم کفر اور عالمی استعمار کے ساتھ عالم اسلام کی حد بندی کے علاوہ کوئی حد بندی نہیں پائی جاتی۔” ولی امر مسلمین کا یہ بیان ایک تاریخی حکمت عملی ہے۔ اس حکمت عملی کے اجرا اور مشق کو نجف سے کربلا تک اربعین کی مشی میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ آج دنیا کے پانچ براعظموں سے نیک ترین افراد اربعین کی مشی میں شامل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس مشی میں ہر دین اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد اور حتی لادین افراد بھی شرکت کرتے ہیں۔ اس مشی میں شریک ہونے کا فلسفہ اس "عدالت” کے بارے میں سوچنا ہے جس کا پرچم امام علی علیہ السلام نے دنیا میں لہرایا اور اس "آزادی” میں مضمر ہے جس کے علمبردار امام حسین علیہ السلام ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button