مشرق وسطی

مذاکرات کے حوالے سے نہ ہم پُرامید ہیں اور نہ ہی مایوس ہیں،آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای

شیعہ نیوز:نئے ہجری شمسی سال کے آغاز کی مناسبت سے ایران کی مجریہ، عدلیہ اور مقننہ کے عہدہ داروں نے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کچھ دیر پہلے ملک کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ایک ملاقات میں کہا کہ عمان مذاکرات وزارت خارجہ کے درجنوں کاموں میں سے ایک ہیں۔ ملکی مسائل کو بات چیت سے نہ جوڑیں۔ ہم ان مذاکرات کے بارے میں نہ تو حد سے زیادہ پر امید ہیں اور نہ ہی حد سے زیادہ مایوسی کا شکار ہیں۔ بالآخر یہ ایک عمل اور اقدام ہے جس کا فیصلہ کیا گیا ہے اور پہلے مرحلے میں یہ مثبت رہا ہے. بلاشبہ، ہم دوسری فریق کے بارے میں خوش فہمی کے شکار نہیں ہیں، لیکن ہم اپنی صلاحیتوں کے بارے میں بہت پر امید ہیں۔

رہبر معظم انقلاب نے ملک کے اعلی حکام سے ملاقات کے دوران کہا کہ ملکی مسائل کو ان مذاکرات سے نہ جوڑیں، جوہری معاہدے میں جس غلطی کا ارتکاب ہوا اسے یہاں نہ دہرایا جائے، جے سی پی او اے کے دور میں ہم نے ملک کو مشروط کیا اور ہر چیز کو مذاکرات کی پیشرفت پر منحصر کر دیا، جب سرمایہ کار دیکھتے ہیں کہ ملک مذاکرات سے مشروط ہے تو وہ سرمایہ کاری نہیں کریں گے۔

سال کے نعرے پر عمل درآمد حکومت کے تینوں اعلی شعبوں کا سنجیدہ ایجنڈا ہونا چاہیے۔ عالم اسلام کو غزہ میں جرائم پیشہ ٹولے کی جارحیت کے خلاف سنجیدہ کارروائی کرنی چاہئے۔

رہبر معظم انقلاب نے ملک کے تینوں شعبوں کے اعلیٰ حکام کے ساتھ نئے سال کی مناسبت سے ملاقات کے دوران معاملات کی پیروی کو ملکی اہداف کے حصول کے راستے کی گمشدہ کڑی قرار دیا اور سال کے نعرے کو تینوں شعبوں کے مشترکہ ایجنڈے کے طور پر آگے بڑھانے پر زور دیا ۔

انہوں نے عمان مذاکرات کے نتائج کے حوالے سے خوش بینی اور مایوسی سے گریز کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ تمام شعبوں میں اہداف کے حصول کے لیے ملک کی سرگرمیاں زیادہ تیزی کے ساتھ جاری رہنی چاہیئں اور کسی چیز کو مذاکرات کے نتائج سے نہیں جوڑنا چاہیے۔

اس ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای نے پیروی کو فیصلے سے زیادہ اہم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ملک میں اچھے قوانین و ضوابط اور ضروری منصوبے موجود ہیں لیکن پیروی کا فقدان اہداف کے قابل قبول حصول میں رکاوٹ ہے۔

انہوں نے پٹرول کی بہت زیادہ کھپت، تعلیمی انصاف کے ناکافی حصول اور کمزور طبقے کے مسائل جیسے امور کی پیروی کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کے تینوں شعبوں کے سربراہان اور اداروں کے عہدیداروں کا جوش و خروش قابل تعریف ہے، لیکن اس کی پیروی کے لیے کافی اور ضروری عزم موجود نہیں ہے جس کے باعث انتظامی درجہ بندی میں بہت سے معاملات پر عمل درآمد نہیں ہوتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب نے توانائی کی بچت کو بنیادی ضرورت قرار دیتے ہوئے تاکید کی کہ سب سے پہلے عوام اور حکومتی ادارے کہ جو توانائی کے سب سے بڑے صارف ہیں، انہیں خود کو بچت کرنے کا عادی بنانا چاہیے، اور اس کام کو بھی آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے اس سال کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے میں مدد کو تینوں شعبوں اور اداروں کا مشترکہ ایجنڈا قرار دیتے ہوئے کہا کہ پیداوار میں سرمایہ کاری کرنے سے ملک کو بہت سے مسائل سے نجات مل جائے گی، اس لیے وزارت اقتصادیات، مرکزی بینک اور دیگر متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ معاشرے میں موجود سرمائے کو پیداوار میں اضافے کی سمت لے جائیں۔

آیت اللہ خامنہ ای نے پیداوار میں سرمایہ کاری کو ایک باوقار کام قرار دیتے ہوئے کہا کہ سرمایہ کاری کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جانا چاہیے اور پیداوار کے میدان میں اقتصادی کارکنوں کی سرگرمیوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو بھی دور کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے ملک کے تین شعبوں بالخصوص حکومت کی کوششوں کو سال کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر ملکی سرمایہ کاری پروان چڑھتی ہے تو غیر ملکی سرمایہ کار بھی ایران میں سرمایہ لگانے میں دلچسپی کا مظاہرہ کریں گے۔

رہبر معظم انقلاب نے پیداوار میں سرمایہ کاری کو پابندیوں سے نمٹنے کا بہترین طریقہ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ پابندیوں کو ہٹانا ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ ان کو ناکام یا غیر موئثر بنا دینا ہمارے اختیار میں ہے اور اس کے لیے بہت سے طریقے اور مناسب ملکی صلاحیتیں موجود ہیں اور اگر یہ ہدف حاصل ہو گیا تو ملک پابندیوں سے دوچار نہیں ہوگا۔

انہوں نے پڑوسیوں، ایشیا، افریقہ اور دیگر ممالک کے اقتصادی مراکز کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کو اہم سمجھتے ہوئے کہا کہ اس عمل کو بھی آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے عمان مذاکرات کو وزارت خارجہ کے درجنوں کاموں میں سے ایک قرار دیا اور تاکید کی کہ ملک کے مسائل کو ان مذاکرات سے نہیں جوڑا جانا چاہئے اور JCPOA میں کی گئی غلطی جس نے ملک کے لئے ہر چیز کو مذاکرات کی پیشرفت پر منحصر کر دیا تھا، کو نہیں دہرایا جانا چاہئے کیونکہ جب ملک پابند ہو جاتا ہے تو پھر سرمایہ کاری روک دی جاتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک میں تمام صنعتی، اقتصادی، تعمیراتی، ثقافتی شعبوں میں سرگرمیوں کے جاری رہنے اور بڑے منصوبوں کے نفاذ پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ان مسائل میں سے کسی کا بھی عمان مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک کا پہلے مرحلے میں مذاکرات کا فیصلہ اچھا رہا ہے۔ اس کے بعد، ہمیں احتیاط سے آگے بڑھنا چاہیے، جب کہ ہمارے اور دوسرے فریق کے لیے ریڈلائنز بالکل واضح ہیں۔

مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں یا نہیں۔ ہم ان مذاکرات کے بارے میں نہ تو بہت زیادہ پر امید ہیں اور نہ ہی بہت مایوسی کا شکار ہیں۔ بلاشبہ، ہم دوسرے فریق کے بارے میں جوش فہمی کے شکار نہیں ہیں، لیکن ہم اپنی صلاحیتوں کے بارے میں پر امید ہیں۔

رہبر معظم انقلاب نے ساتویں پلان کے قطعی نفاذ کو ضروری قراردیتے ہوئے کہا کہ یہ اچھا منصوبہ جو کہ ملک کی میکرو پالیسیوں پر انحصار کرتا ہے، شروع سے ہی مضبوطی کے ساتھ نافذ ہونا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button