ہم سرخرو، ہم خدا دوست، ہم قاسم
سردار قاسم سلیمانی اور ان کے رفقاء کی شہادت کو دو برس بیت چکے ہیں۔ اس دوران ہر قسم کی محفلوں میں شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت پر بات کی گئی۔ ان دو برسوں میں مجھے وطن عزیز پاکستان میں کوئی ایک فرد واحد ایسا نہ ملا، جس نے شہید قاسم سلیمانی کی تعریف و ستائش نہ کی ہو، جب بھی، جہاں بھی بات ہوئی، ہر کسی نے ان کی شخصیت، کردار، پیشہ ورانہ مہارت اور ان کے کارہائے نمایاں کی نہ صرف داد و تحسین کی بلکہ 3 جنوری کو بغداد ائیرپورٹ پر ان پر ہونے والے ڈرون حملے کو سبھی نے امریکہ کی ایسی فاش غلطی قرار دیا کہ جس کے نتیجے میں امریکہ کو نہ صرف عراق بلکہ افغانستان سے بھی فوری طور پہ اپنا مکمل انخلاء یقینی بنانا پڑا اور دیگر بیرونی دنیا میں امریکی فوج اس حد تک سکیورٹی رسک کا شکار ہوئی کہ اسے کورونا کی آڑ میں اپنی سرگرمیاں معطل کرکے خصوصی ڈیفنس شیلڈ کے پیچھے پناہ لینی پڑی۔
علماء کی زبانی جب شہید قاسم سلیمانی کو سنا تو انہیں ایک ایسا توحید پرست پرہیزگار، متقی، باعمل عالم دین پایا کہ جو ہر میدان میں اپنی سعی انجام دینے کے بعد خدا کے لطف و کرم کا منتظر رہتا اور وہ اتنا خدا دوست تھا کہ اسے نتائج کے ضمن میں ہمیشہ الہیٰ مدد حاصل رہی۔ خدا کے ساتھ ان کے قرب اور انحصار کا معیار یہ تھا کہ ایک مقام پر جوانوں سے فرماتے ہیں کہ ”ہم میں اتنا تو فکری بلوغ ہونا چاہیئے کہ ہم میں دکھائی دینے کی بھوک نہ ہو، کیونکہ جسے دیکھنا ہے (خدا)، وہ تو دیکھ رہا ہے۔“ شہید قاسم سلیمانی کا کارنامہ محض یہ نہیں کہ وہ ہر محاذ کے فاتح و کامران سپہ سالار تھے۔ یہ ان کی کامیابی و خدمات کا محض ایک رخ ہے۔ ان کا بڑا کارنامہ دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلی ایک ایسی قوت کا قیام ہے کہ جو دکھائی دینے کی بھوک سے ماورا ہے اور محض کہ خدا دیکھ رہا ہے کی مصداق خوشنودی خدا کی خاطر ہر دور کے باطل کے سامنے اپنے اپنے میدان میں مصروف عمل ہے۔
دنیا کی گنی چنی چند ہی شخصیات ایسی ہیں کہ جن کیلئے لیڈر، سالار یا قائد ہونے سے زیادہ اہم یہ تھا کہ وہ کس قوم، کس فورس کے سالار یا قائد ہیں۔؟ شہید قاسم سلیمانی کا تعلق بھی اسی قبیلے سے تھا۔ وہ جس فوج کے سپہ سالار تھے، اس کی بنیاد ہی الہیٰ اقدار پر استوار ہے۔ یہ فورس دنیا کے گوشے گوشے میں عالمی سامراجی ایجنڈے کی راہ میں مزاحم ہے۔ اس کا عزم و عہد نہ صرف قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی بلکہ عالم اسلام کی سرزمین اور وسائل پر دشمنان اسلام کے جاری غاصبانہ قبضے کو واگزار کرانا ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں یہ فورس حق کے ساتھ اور باطل کے خلاف ہے۔ شہید قاسم سلیمانی کے اس لشکر میں کوئی ایسا سپاہی شامل ہی نہیں کہ جس کا مطمع نظر دولت، عہدہ، شہرت، دنیا یا عیش و مسرت ہو۔ یہی اس کی کامیابی کا آشکارا راز بھی ہے۔ قاسم سلیمانی جہاں جس میدان میں وارد ہوئے، سرخرو ہوئے۔ کیوں۔؟ کیونکہ سالار اور سپاہی دونوں کیلئے خدا کی راہ میں خدا کا لطف و کرم ہی حقیقی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی محاذ پر افرادی قوت، ہتھیار یا خوراک کی کمی شہید قاسم سلیمانی اور ان کی سپاہ کے فلک شگافتہ حوصلوں میں شگاف نہ ڈال سکی۔
امریکہ اور اس کے (کروسیڈ وار) حلیفوں نے پہلے اسلامی دنیا میں تزویراتی اثاثے، رضاکارانہ جنگی قوت یا مجاہدین کے نام پر شتر بے مہار کی مانند تربیت یافتہ افرادی قوت تیار کی۔ پھر دنیا بھر سے اس غیر ریاستی افرادی قوت کو عراق و شام میں اپنی ہی چھتری کے نیچے اکٹھا کرکے داعش کے نام سے اسے اسلامی لبادہ پہنایا اور پھر اسے عالم اسلام کی نمائندہ جہادی فوج کا نام دیتے ہوئے اسلامی دنیا میں قائم حکومتوں کو غیر شرعی قرار دیکر ان کو گرانے کی غرض سے پیش قدمی کرا دی۔ اس وقت دنیا بھر کا میڈیا داعش کے ترانے گا رہا تھا۔ عراق اور خطے کے دیگر ممالک بشمول سعودی عرب پر داعش کے قبضے کو مہینوں یا ہفتوں نہیں بلکہ دنوں اور گھنٹوں کا معاملہ قرار دیا جا رہا تھا۔ پورے خطے میں واحد پرسکون اکلوتی ناجائز اور غیر قانونی ریاست اسرائیل تھا، جہاں راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا جبکہ پورا خطہ جنگ کی آگ میں جل رہا تھا۔ داعش کی تیاری، پیشقدمی کا مقصد بھی نیل سے فرات تک اسرائیل کی توسیع کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا تھا، مگر یہ شرمناک خواب، خواب ہی رہا اور رہے گا۔
ایسے میں شہید قاسم سلیمانی اپنی فورس کے ہمراہ میدان میں وارد ہوئے۔ جس طرح امریکہ و اسرائیل نے پوری دنیا سے جرائم پیشہ افرادی قوت اکٹھی کرکے داعش جیسی دہشتگردانہ قوت تشکیل دی تھی۔ شہید قاسم سلیمانی نے خدا کو دوست رکھنے والوں کو مزاحمت کی کال دی اور الگ الگ شناخت رکھنے والے چھوٹے دستے تشکیل دیکر مختلف محاذوں پہ تعینات کرکے پہلے داعش کی پیش قدمی روکی۔ زیارات مقدسہ کے دفاع کیلئے مدافع حرم کی اصطلاح سے مختلف شہروں کی سکیورٹی مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے نظریاتی سپاہیوں کے سپرد کی۔ فاطمیون، زینبیون، حیدریون و دیگر گروہ تشکیل پائے، دفاع مقدس واجب قرار پایا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ شہید قاسم سلیمانی اور ان کی سپاہ ایک طرف تھی، پوری دنیا کے وسائل، افرادی قوت، سامان حرب اور جنگی حکمت عملیاں دوسری جانب، مگر قاسم سلیمانی اور ان کی سپاہ کو کامیابی نصیب ہوئی۔ ہر محاذ پر کامیابی، شہید قاسم سلیمانی نے ہر محاذ تک اپنی رسائی یقینی بنائی۔ ان کی کامیابی کے نقارے فقط ایران، عراق، شام تک محدود نہیں رہے بلکہ پاکستان، افغانستان، ہندوستان، یمن اور نائیجیریا تک گونجے۔
امریکہ و اسرائیل کا برسوں کا خواب چکنا چور ہوا۔ جس مزاحمتی قوت کو اسرائیل کچلنے کی خاطر ہزار جتن کر رہا تھا، وہی قوت اس کے در و دیوار تک آن پہنچی۔ شائد امریکہ اور اس کے کروسیڈ وار حلیفوں کے پاس سردار قاسم سلیمانی کے قتل کے علاوہ کوئی اور چارہ ہی نہیں تھا۔ بزدل دشمن کی مانند، ہمیشہ کی طرح عالمی قوانین، معاشرتی اقدار اور سفارتی و جنگی آداب کو روندتے ہوئے آج ہی کے دن 3 جنوری 2020ء کو امریکہ نے ڈرون حملے میں سردار قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس کو ان کے ساتھیوں کے ہمراہ شہید کر ڈالا۔ اس حملے کے اثرات آج بھی جاری ہیں۔ دو سال گزرنے کے باوجود دنیا بھر میں شہید قاسم سلیمانی اور ان کے رفقاء کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے تو امریکہ اور اس کے ساتھیوں پر شدید تنقید جاری ہے جبکہ مزاحمتی تحریکوں اور گروہوں کی جانب سے بغداد ڈرون اٹیک کا ردعمل امریکہ و اسرائیل پر کسی نہ کسی حملے کی صورت تسلسل کے ساتھ مل رہا ہے۔ اس ردعمل کیلئے میدان اور مقام کا انتخاب اور وقت کا تعین یہ گروہ خود کر رہے ہیں اور آج بھی امریکی و اسرائیلی مفادات ان کے نشانے پہ ہیں۔
سردار قاسم سلیمانی مزاحمت و مقاومت کا محور و مرکز تھے۔ وہ صحیح معنوں میں عالم اسلام کے سپہ سالار تھے۔ انہیں پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک کی تائید و حمایت حاصل تھی۔ البتہ عالمی قوانین و سفارتی مجبوریوں کے پیش نظر یہ ممالک عالمی فورمز پر ان کی تحسین و ستائش کرنے سے قاصر رہے۔ پاک فوج کے سابق اعلٰی عہدیدار کے مطابق شہید قاسم سلیمانی نے اوائل میں پیشہ ورانہ کورسز پاکستان میں مکمل کئے۔ ایران کے بعد پاکستان ہی وہ اسلامی ملک ہے کہ جس کے ڈیفنس کی ساخت اسرائیل کو دشمن قرار دے کر ترتیب دی گئی ہے، خطے میں ہونے والی پیشرفت میں دونوں ممالک کے مابین خاموش تعاون رہا ہے۔ سابق امریکی سفیر ریان کروکر کہتے ہیں کہ میں نے افغانستان میں روٹ لیول تک قاسم سلیمانی کا رسوخ محسوس کیا۔ فلسطینی رہنماء نے شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت سے متعلق ایک دل پذیر سوال اٹھایا ہے کہ ”مسلمانوں کا وہ کونسا جرنیل ہے کہ جسے امریکیوں نے شہید کیا ہے۔ پاکستانیوں نے جنازہ پڑھایا ہے۔ عراقیوں نے کندھا دیا ہے۔ ایرانیوں نے دفنایا ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس کا غم منایا ہے۔“ یہ ہر میدان کے فاتح، مقاومت و مزاحمت کے محور و مرکز شہید سردار حاج قاسم سلیمانی ہی ہیں کہ جو پورے عالم اسلام کے ہر دلعزیز ہیں۔
مجھے ایران اور ایرانی پالیسیوں کے ناقد تو کہیں نہ کہیں مل ہی جاتے ہیں، مگر ان دو برسوں میں مجھے ایک بھی ایسا پاکستانی نہیں ملا، جو شہید قاسم سلیمانی سے متاثر نہ ہو اور ان کی خدمات کا معترف نہ ہو۔ کتنی عجیب بات ہے کہ عام طور پر انسان ہمیشہ زندگی سے متعلق چیزوں، رتبوں، عہدوں سے متاثر ہوتا ہے اور انہی کی خواہش کرتا ہے۔ جیسے گھر فلاں جیسا، گاڑی فلاں جیسی، اختیار، قوت وغیرہ وغیرہ مگر شہید قاسم سلیمانی اور ان کی سپاہ نے اس قانون کو ہی الٹا دیا۔ میدان عمل میں درپیش مشکلات متاثر کن ہوگئیں۔ سرخروئی، یعنی شہادت آئیڈیل ہوگئی۔ آج اگر بات قبلہ اول، فلسطین کی آزادی کیلئے میدان عمل میں اپنا کردار ادا کرنے کی ہے، اگر بات امریکہ اور اسرائیل کے شیطانی اور دجالی نظام و ایجنڈے کی راہ میں مزاحم ہونے کی ہے۔
اگر بات ہے اسلام کے نام پر دہشتگرد گروہوں کی سرکوبی کی، اگر سوال ہے حرمین شریفین سمیت دنیا بھر میں موجود محمد و آل محمد کے مزارات مقدسہ کی حفاظت کا، اگر بات ہے عالم اسلام کی زمین، وسائل، املاک اور مفادات کے دفاع کی اور سب سے بڑھ کر اگر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں الہیٰ نظام کے نفاذ، مظلوموں، محروموں کی داد رسی کی تو یقین کریں کہ ہم میں سے ہر شخص کے اندر ایک قاسم سلیمانی موجود ہے۔ جو اپنی زندگی راہ اللہ وقف کرنے کا عزم بھی رکھتا ہے اور ایسے فاتحانہ، جاودانہ انتقال کا بھی خواہشمند ہے کہ جو ایسی بے مثال سرخرو شہادت کی صورت ہو۔ شہادت یعنی حیات۔ ابدی حیات۔ سلام بر قائد مقاومت و مزاحمت قاسم سلیمانی کو ہمارے انہی دلوں کا سلام کہ جن دلوں پہ انہی کی حکومت ہے۔
تحریر: عمران خان