
ہتھیار ڈالیں گے اور نہ ہی لبنان کو اسرائیل کے حوالے کریں گے، شیخ نعیم قاسم
شیعہ نیوز: حزب اللہ کے سربراہ شیخ نعیم قاسم نے مقاومت کو غیر مسلح کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ لبنان پر صہیونی قبضے کی سازش ناکام بنائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے شہید فواد شکر کی پہلی برسی پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی آج حزب اللہ سے ہتھیار پھینکنے کا مطالبہ کر رہا ہے، وہ دراصل اسرائیل کو وہ ہتھیار سونپنے کی سازش کر رہا ہے۔ ہم نہ ہتھیار پھینکنے کو تیار ہیں اور نہ ہی دشمن کے سامنے سر جھکانے کے لیے آمادہ ہیں۔
شیخ نعیم قاسم نے شہید فواد شکر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ 1982 سے قبل ایک دس رکنی گروہ کے سربراہ تھے جنہوں نے اسرائیل سے جنگ کا عہد کیا اور گروہ میثاق کے نام سے مزاحمت کا آغاز کیا۔ فواد شکر امام خمینیؒ کے عاشق اور ان کی رحلت کے بعد رہبر معظم انقلاب امام خامنہای کے پیروکار تھے۔ انہوں نے بوسنیا میں حزب اللہ کی کارروائیوں کی قیادت کی اور حزب اللہ کی بحری فورس کے بانی تھے۔
یہ بھی پڑھیں : مقبوضہ علاقوں میں تین حساس صہیونی تنصیبات پر یمنی ڈرون حملے
نعیم قاسم نے کہا کہ اسرائیل اور امریکہ غزہ میں روزانہ کی بنیاد پر منظم اور منصوبہ بندی کے تحت جنگی جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی جرم کا موازنہ ان مظالم سے نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا کو چاہیے کہ متفقہ موقف کے ساتھ اسرائیل کے خلاف کھڑی ہو۔
انہوں نے فرانسیسی جیل میں قید مجاہد جارج عبداللہ کو بھی خراج تحسین پیش کیا، جو 41 برسوں سے قید میں ہیں لیکن اپنی مزاحمتی سوچ سے دستبردار نہیں ہوئے۔
نعیم قاسم نے واضح کیا کہ حزب اللہ نے ثابت کیا ہے کہ وہ لبنان میں حکومت سازی کی بنیادی رکن ہے۔ یہ محض ایک عسکری قوت نہیں بلکہ ایک عوامی اور سیاسی طاقت بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایک طرف دشمن سے آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں اور دوسری طرف عوام کے تعاون سے ملک کی تعمیر چاہتے ہیں۔ لبنانی عوام نے شہداء کے جنازوں میں حاضری اور بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے کر یہ واضح کر دیا ہے کہ حزب اللہ نہ کمزور ہوئی ہے اور نہ تنہا ہے۔ یہی وہ مقاومت ہے جس نے دشمن کو جنگ بندی پر مجبور کیا، لیکن ہم اب بھی دفاعی پوزیشن میں ہیں اور حکومت کی معاونت کر رہے ہیں۔
شیخ نعیم قاسم نے اس بات پر زور دیا کہ مزاحمتی ہتھیار لبنان کے تحفظ کے لیے ہیں۔ اسرائیل پانچ مقبوضہ علاقوں میں محدود نہیں رہے گا بلکہ وہ مقاومت کے غیر مسلح ہونے کا انتظار کررہا ہے تاکہ اپنی توسیع پسندانہ پالیسی کو آگے بڑھا سکے۔ معاہدے سے امن نہیں آئے گا۔ کیا شمالی بستیوں میں معاہدے سے امن قائم ہوا؟ بالکل نہیں۔ شام کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ شام کی جغرافیائی، سیاسی اور قومی شناخت کو بمباری اور قتل عام سے بدل چکا ہے، اور یہی خطرہ اب لبنان کو درپیش ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم لبنان کو اسرائیل کا حصہ نہیں بننے دیں گے، چاہے پوری دنیا اکٹھی ہو جائے۔ ہم ہرگز اجازت نہیں دیں گے کہ لبنان کو یرغمال بنایا جائے۔ جو آج اسلحہ پھینکنے کی بات کرتا ہے، وہ دراصل لبنان کی طاقت دشمن کو سونپنا چاہتا ہے۔
انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ ہم اپنی سرزمین کا دفاع کرتے رہیں گے، چاہے اس راہ میں ہم میں سے بہت سے شہید ہوجائیں۔ ہم اپنی پوری قوت کے ساتھ اس کے خلاف ڈٹے رہیں گے۔ ہمارا دفاع کسی بھی حد و سرحد کا پابند نہیں۔