
اب ہم گورنر ہاؤس، سی ایم ہاؤس یا ایوان صدر کا نہیں بلکہ راولپنڈی کا رخ کریں گے
شیعہ نیوز:شیعہ مسنگ پرسنز کےاہل خانہ نے سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین سماجی رہنماؤں کے ہمراہ کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کلبھوشن کے گھروالوں کومعلوم ہے کہ وہ پاکستان کی کس جیل میں ہے لیکن شیعہ جبری لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو اپنے پیاروں کا کوئی اتاپتہ معلوم نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں ؟ وہ زندہ بھی ہیں یا مار دیئے گئے ہیں؟آج کی اس پریس کانفرنس کا مقصد میڈیا کے ذریعے یہ بات دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے بھائی، بیٹے، خاوند جنہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئےچار دیواری کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے اغواء کیا ان کے اہل خانہ آج کس حال میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے کئی مرتبہ دھرنے دیئے اور ہر ادارے کے دروازے کو کھٹکایا،ہمیں جہاں سے بھی زراسا انصاف ملنے کی امید تھی گورنر ہاؤ س سے لیکر صدر مملکت کے گھر تک جب ہر دروازے سے ہمیں مایوسی کا سامنا ہواتو ہم نےمجبورہوکر فیصلہ کیا کہ اب کیوں نا اس دروازے کو کھٹکایا جائے جو اس ملک میں ہر سیاہ و سفید کے مالک ہیں، جن کی مرضی کے بغیر عدالتوں میں بینچ نہیں بن سکتے،جو اتنے بااختیار ہیں جب چاہیں دن کی روشنی ہو یا رات کی تاریکی کسی کو بھی اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں ، وہ جو آئین تو توڑ ڈالتے ہیں قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہیں ہم نے جب اس دروازے پر دستک دی تو سادہ لباس اور باوردی پولیس اہلکاروں نے ہم خواتین اور بچوں پر دھاوابول دیاویڈیو سوشل میڈیا پر آج بھی موجود ہیں ۔
ا ن کا کہنا تھا کہ یہ کیسی اسلامی ریاست ہے جہاں خواتین کو دھکے دیئے گئے، انہیں گندی گندی گالیاں دی گئیں،یہ کیسی ریاست مدینہ ہے جہاں عورتوں کی کوئی عزت نہیں، طاقت کے نشے میں دھت ان وہشی درندوں نے نہ فقط عزت دارخواتین کی چادریں نوچیں ، معصوم بچوں اور عورتوںپر لاٹھی چارج کیا، بلکہ ہمارے جوان بھائیوں کو بھی زبردستی اٹھا کر تھانے لے گئےجنہیں 8گھنٹے تک قیدوبندمیں مبتلا رکھا گیا۔ہم آج وزیر اعظم اور آرمی چیف کو بتادینا چاہتے ہیں کہ اگر ہمیں انصاف نہ ملا اور ہماری آواز کو نہ سنا گیا تو اب ہم گورنر ہاؤس، سی ایم ہاؤس یا ایوان صدر کا نہیں بلکہ راولپنڈی کا رخ کریں گے ۔
سول سوسائٹی سےتعلق رکھنے والی ایک خاتون رہنما نے کہاکہ مجھےپتا چلا کہ ہماری بہنوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ روئیے اختیار کیا گیا تو میں اپنی تمام تر مصروفیات کو ترک کرکےیہاں پہنچی ہوں۔ ہماری ریاست کو اپنے رویئے تبدیل کرنے ہوں گے، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ کسی کے پیارے کو کئی کئی سال سے جبری طور پر لاپتہ رکھیں اور اس کے اہل خانہ اس ظلم پر آواز بھی بلند نہ کریں، یہ بوڑھی مائیں اپنے جوان بیٹوں کی یاد میں روزانہ جیتی اور روزانہ مرتی ہیں۔ اگر ان کے پیاروں نے کوئی جرم کیا ہے کہ انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے اور آئین کے مطابق ان کا ٹرائل کیا جائے۔