جنوبی یمن میں کیا ہو رہا ہے؟
ترتیب و تنظیم: علی واحدی
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) یمن میں سعودی اماراتی اتحاد کی جارحیت کے آٹھ سال بعد اگر جائزہ لیا جائے تو سیاسی اور فوجی صورتحال کسی بھی طرح جارحیت پسندوں کے اہداف اور منصوبوں سے میل نہیں کھاتی اور حملہ آور دن بہ دن یمن کی دلدل میں اتر رہے ہیں۔ حملہ آور سعودیوں اور اماراتیوں نے ایک طویل عرصے سے انصار اللہ سے زبردست شکست کے بعد شمالی علاقے میں اپنی موجودگی اور اثر و رسوخ کو مکمل طور پر مسدود کرکے اپنی سرگرمیاں جنوبی صوبے پر مرکوز کر رکھی ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس علاقے کے عوام میں عدم اطمینان کی سطح بھی بڑھ رہی ہے، جس نے اتحادیوں کے لیے مستقبل میں جنگ اور کامیابی کے امکانات کو مزید تاریک بنا دیا ہے۔
اس سلسلے میں جنوبی یمن کی انقلابی تحریک نے بیرون ملک اپنے حامیوں اور جنوبی صوبوں بالخصوص عدن کے باشندوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سڑکوں پر آئیں اور لحج میں ردفان کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج کریں۔ تحریک نے جنوبی صوبوں میں عبوری کونسل کی طرف سے انسانی حقوق اور سیاسی آزادیوں کی جاری خلاف ورزیوں کو مسترد کیا ہے۔ جنوبی یمن کی انقلابی تحریک کے مطابق عبوری کونسل کے جرائم میں سے ایک سیاسی مخالفین کو پھانسی دینا اور انہیں متحدہ عرب امارات کی خفیہ جیلوں میں قید کرنا ہے۔ سیاسی مخالفین کو مختلف طریقوں سے جسمانی اور ذہنی اذیتیں دی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے ان میں سے بعض کی موت بھی واقع ہوئی ہے۔
جارح اتحاد کے جرائم کے خلاف احتجاج کی کال کی ایک وجہ یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں یمن کی مستعفی حکومت کے ساتھ ایک سکیورٹی معاہدے پر دستخط کیے ہیں، ایسا معاہدہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ متحدہ عرب امارات کو یمن میں زمینی، سمندری اور فضائی تمام شعبوں میں مداخلت کرنے کی اجازت مل جائیگی۔ سعودی اتحاد کے جرائم سے نمٹنے کے لیے یمنیوں کی کوششوں کا کئی جہتوں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
عدم استحکام سے نمٹنا
دشمنوں کے ساتھ محاذ آرائی کے لیے لوگوں کو سامنے لانے کی ایک اہم وجہ سعودی اماراتی کرائے کے فوجیوں کے زیر کنٹرول دیگر علاقوں میں وسیع پیمانے پر عدم استحکام ہے۔ سعودی اور ابوظہبی حکام کی جانب سے ان علاقوں میں سکیورٹی قائم کرنے کے دعوؤں کے باوجود عدم استحکام اور عدم تحفظ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ انصار اللہ کی افواج جنوبی یمن میں موجود نہیں ہیں اور یہ علاقہ چند سال پہلے سے سعودی اور اماراتی کرائے کے فوجیوں کی پناہ گاہ بن چکا ہے اور دونوں ممالک کی افواج کے درمیان کئی خونریز جھڑپیں ہوچکی ہیں، جن کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں۔ مئی 2018ء میں، جب سعودی اور اماراتی کرائے کے فوجیوں کے درمیان تنازعہ عروج پر تھا، ریاض میں دونوں ممالک کے حکام نے اس کشیدگی کو کم کرنے پر اتفاق کیا تھا کہ یمن کے جنوب میں واقع جزیره سقطری کو پانچ سال کے لئے سعودی عرب کے حوالے کر دیا جائے گا اور اس کے بدلے میں، جنوب میں سعودی حمایت یافتہ حکومت کو تحلیل کر دیا جائے گا۔
یہ خبر بھی پڑھیں پر امن سعودی عرب کے پیچھے چھپی ایک الگ دنیا
معاہدے کے مطابق جنوبی یمن کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے ابوظہبی کی پالیسیوں کی حمایت کرنے والی حکومت کچھ علاقوں سے انخلا کرے گی۔ لیکن ان معاہدوں کی کئی شقوں پر عمل درآمد نہیں کیا گیا اور اس کی وجہ سے دونوں فریقین کے درمیان تنازعات جاری رہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تنازعہ نے جنوبی یمن کے عوام کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور وہ اس صورتحال سے تنگ آچکے ہیں۔ دونوں ممالک کے کرائے کے فوجیوں کے علاوہ یمنی اخوان المسلمین اور قابضین کے درمیان کشیدگی نے عدم استحکام اور عدم تحفظ کے عمل میں مزید اضافہ کیا ہے۔ اخوان المسلمون سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ہونے والے معاہدوں کے حوالے سے اخوان کو منظر سے ہٹانے کی کوشش کی گئی۔
لیکن جنوبی اور وسطی علاقوں میں اس گروہ نے اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کیا۔ یہاں تک کہ تین سال قبل اس گروہ نے تعز شہر میں جارح اتحاد کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور لوگوں کو اس قابض گروہ کا مقابلہ کرنے کی دعوت دی۔ دوسری جانب متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے قبضے کے علاوہ ہزاروں یمنیوں کو گرفتار کرکے ان پر تشدد کیا ہے اور اس جرم نے یمنیوں کے غصے کو بھڑکا دیا ہے۔ گذشتہ برسوں میں متحدہ عرب امارات کی خفیہ جیلوں میں یمنیوں پر تشدد اور جنسی زیادتی کے بارے میں بہت سی دستاویزات شائع ہوئی ہیں اور ان جیلوں کی حالت اتنی بھیانک ہے کہ بعض لوگ انہیں اماراتی ابو غریب کہتے ہیں۔ جو لوگ غاصبوں کے خلاف ہیں، جہاں ان کو ان جیلوں میں رکھا جاتا ہے اور وہاں دوسرے یمنی بھی محفوظ نہیں۔ اسی وجہ سے یمن کے جنوبی لوگ حملہ آوروں کے خلاف متحد ہو کر اس ملک کو غیروں کے ہاتھوں سے آزاد کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اقتصاد اور معاشی مسائل
یمنیوں کے احتجاج کا ایک اور مسئلہ وسیع پیمانے پر اقتصاد اور معاش کے مسائل سے متعلق ہے۔ یمن پر جارحین کے قبضے کے بعد سے، جس میں زمینی، فضائی اور سمندری ناکہ بندی بھی تھی، یمن کے عوام بدترین حالات سے دوچار ہیں اور لاکھوں لوگ بھوک اور دائمی و وبائی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ اگرچہ جارحیت پسندوں کا دعویٰ ہے کہ جنوبی یمن میں حالات زندگی بہتر ہیں، لیکن موصول ہونے والی رپورٹیں اس کے برعکس ہیں۔ جنوبی یمن کے عوام نے بارہا حالات زندگی کی خرابی اور ڈالر کے مقابلے میں یمنی ریال کی قدر میں کمی کے خلاف اپنی مخالفت کا اظہار کیا ہے، کیونکہ ڈالر کے مقابلے میں یمنی ریال کی قدر میں کمی سے لوگوں کی قوت خرید میں کمی آئی ہے۔ اکتوبر 2022ء میں عدن، لحج، شبوا اور حضرموت کے صوبوں میں ہزاروں لوگوں نے اقتصاد اور معاش کی نازک صورتحال اور خدمات کی سطح میں کمی کے خلاف احتجاج کیا۔
جنوب یمن میں عوام کی صورتحال ابتر ہے جبکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے یمن کے تیل اور گیس کے وسائل کو لوٹ کر اربوں ڈالر کمائے ہیں۔ انصار اللہ کے رہنماؤں کے مطابق منافع کی رقم 10 ارب ڈالر سے زائد ہے، لیکن یہ خطیر رقم کسی بھی طرح یمنیوں کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے خرچ نہیں کی گئی بلکہ سعودی اور ابوظہبی کے بینکوں میں منتقل کر دی گئی ہے۔ یہ دیکھ کر کہ یمنی بدترین معاشی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور قابضین ان کے وسائل کو لوٹ رہے ہیں، یمنیوں نے جارحوں کے اصل عزائم کو بھانپ لیا ہے۔ وہ جان گئے ہیں کہ جارحین کا مقصد تیل اور گیس پر غلبہ حاصل کرنا تھا۔
جنوب کی نوآبادیات کی مخالفت
جنوب کے لوگ انصار اللہ کے حامی نہیں ہیں، لیکن دوسری طرف وہ سعودی عرب اور ابوظہبی کے ہاتھوں اس خطے کی استعمار کے سخت خلاف ہیں اور بہت سے لوگ آزادی بھی چاہتے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات عملی طور پر یمن کے جنوبی صوبوں کو اپنی سرزمین کا حصہ سمجھتے ہیں اور یمنیوں کی مرضی اور ان کی قومی خود مختاری کو اہمیت نہیں دیتے۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے معاہدوں کے ذریعے یمن کے جنوب کو اپنے درمیان تقسیم کر لیا ہے اور یمن کے جزائر پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ جو اقدامات کر رہے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا ان علاقوں کو یمنیوں کو واپس کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اب متحدہ عرب امارات نے سقطری جزیرے پر ایک اڈہ بنایا ہے، جو صیہونی حکومت کے جاسوس ڈرونز کے لیے ایک ہوائی اڈہ کے طور پر کام کر رہا ہے۔ اس جزیرے پر ہزاروں اسرائیلی شہری اور کرائے کے اماراتی فوجی آباد ہیں اور مقامی لوگوں کو یہ جزیرہ چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ سعودی عرب نے یمن کے مشرق میں حضرموت اور المحرہ صوبوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے اور ان کے توانائی کے ذرائع کو لوٹ لیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں یمن کے عوام کے خون کی تجارت کون کر رہا ہے؟
یمنی عوام جنوب کے ٹکڑے ہونے اور کئی چھاؤنیوں میں تقسیم ہونے سے پریشان ہیں، کیونکہ ابوظہبی اور مستعفی حکومت کے درمیان حالیہ معاہدہ اسی حوالے سے کیا گیا ہے۔ جنوبی یمن میں حالیہ برسوں میں سعودی عرب اور ابوظہبی کی سرگرمیاں یمن کی علیحدگی کے منصوبے کا حصہ ہیں، جسے ان علاقوں کے عوام قبول نہیں کرتے اور شاید یہ مسئلہ جنوبی یمن کے لوگوں کو باہمی اتحاد اور انصار اللہ کے ساتھ اتحاد کی طرف لے آئے اور قابضین کے پاس یمن چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔ جنوب میں جارحین کی تیزی سے پیش قدمی اس خطے کے قبائل کی سعودی اتحاد کے ساتھ تعاون کی وجہ سے تھی، لیکن اب قبائل کی پالیسیوں میں سعودی عرب سے دوری اور عدم تعمیل کے آثار نظر آرہے ہیں۔