مشرق وسطیہفتہ کی اہم خبریں

ایران نے اب تک ایٹمی ہتھیار کیوں نہیں بنایا؟

شیعہ نیوز:ایران کا جوہری پروگرام بین الاقوامی تعلقات کا ایک انتہائی پیچیدہ اور متنازعہ موضوع رہا ہے۔

اگرچہ مغربی ممالک اکثر ایران پر ایٹمی ہتھیار بنانے کے ارادے کا الزام لگاتے رہے ہیں، لیکن تہران ہمیشہ اسے پرامن مقاصد کے لیے ضروری قرار دیتا آیا ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے 2003 میں ایک شرعی فتویٰ جاری کیا جس میں واضح کیا گیا کہ قرآن، سنت اور ائمہ معصومین (ع) کی تعلیمات کی رو سے ایٹمی، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال، تیاری اور ذخیرہ کرنا حرام ہے، یہ فتویٰ ایرانی خارجہ پالیسی کا حصہ بنا اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کو بھی باضابطہ طور پر بھیجا گیا۔

شیعہ فقہ کے مطابق جہاد صرف دفاعی جنگ تک محدود ہے، بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانے والے ہتھیار (جیسے ایٹم بم) غیر اخلاقی اور حرام قرار دیے گئے ہیں، ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (Nuclear Non-Proliferation Treaty) کا 1970ء سے رکن ہے۔

اس معاہدے کے تحت ایران نے ایٹمی ہتھیار نہ بنانے کا عہد کیا، آئی اے ای اے کے معائنے قبول کیے۔

2006 سے اقوام متحدہ، امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے سخت معاشی پابندیاں لاگو ہیں، اگر ایران ایٹم بم بناتا تو پابندیاں مزید سخت ہو جاتیں، بین الاقوامی سطح پر مکمل علیحدگی کا خطرہ تھا۔

ایران کا دفاعی نظریہ بھرپور ردِ عمل (Deterrence by Punishment) پر مبنی ہے، روایتی فوج (9 لاکھ سے زائد اہلکار)، غیر روایتی جنگ، میزائل ٹیکنالوجی (2,000 کلومیٹر تک مار کرنے والے میزائل، اس نظریے کے مطابق روایتی ہتھیار ہی اسرائیل اور امریکہ کو روکنے کے لیے کافی ہیں۔

اگر ایران ایٹمی ہتھیار بناتا، سعودی عرب، ترکی، مصر جیسے ممالک بھی ایٹمی پروگرام شروع کر دیتے، مشرق وسطیٰ میں جوہری دوڑ شروع ہو جاتی۔

پابندیوں نے جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی محدود کر دی، جدید سینٹری فیوج خریدنے میں دشواری ، یورینیم افزودگی (Enrichment) کا عمل سست ہے۔

اندازے کے مطابق ایٹمی ہتھیار پروگرام پر $500 ارب سے $1 ٹریلین لاگت آتی، ایران جہاں *40 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، وہاں عوام اس لاگت کو برداشت نہیں کر سکتے۔

چین اور روس جیسے ممالک کی حمایت حاصل کرنے کے لیے، یورپ کو امریکہ سے الگ کرنے کے لیے، ایران نے جوہری مذاکرات کو استعمال کیا۔

2015 کے جوہری معاہدے (JCPOA) سے پابندیاں عارضی طور پر اٹھیں، جس سے معیشت کو فائدہ ہوا۔

ایرانی عوام کی اکثریت پرامن جوہری توانائی کی حامی ہے، ہتھیار بنانے کی صورت میں عوامی حمایت کمزور ہوتی۔

فوردو جوہری تنصیبات پر IAEA کے 30 سے زائد معائنے، ایران کا بوشہر جوہری بجلی گھر 1,000 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔

دوسرا پلانٹ تعمیراتی مراحل میں ہے، طبی، زرعی اور صنعتی شعبوں میں ریڈیو آئسوٹوپس کا استعمال کیا گیا۔

ایران کے پاس صرف 20 فیصد تک افزودہ یورینیم ہے، ایٹم بم کے لیے 90 فیصد افزودگی درکار ہوتی ہے، جس کی صلاحیت ایران کے پاس نہیں۔

ایران کے اب تک ایٹمی ہتھیار نہ بنانے کی فیصلہ کن وجوہات یہ ہیں۔

مذہبی پابندی: خامنہ ای کا فتویٰ ایٹمی ہتھیاروں کو حرام قرار دیتا ہے۔

بین الاقوامی دباؤ: این پی ٹی معاہدہ اور پابندیوں کا خوف ہے۔

دفاعی حکمت عملی: میزائل ٹیکنالوجی اور روایتی فوج پر انحصار ہے۔

معاشی لاگت: غربت کے شکار معیشت کے لیے ناقابل برداشت اخراجات ہیں۔

سیاسی مصلحت: بین الاقوامی تعلقات میں توازن اور عوامی حمایت ہے۔

ایران کا بنیادی مقصد جوہری صلاحیت کا حصول بننا ہے، نہ کہ ایٹمی ہتھیار بنانا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران جوہری ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرے، اگر کبھی شدید خطرہ لاحق ہو تو محدود وقت میں ہتھیار بنا سکے، اس حکمت عملی سے وہ دباؤ کے بغیر صلاحیت حاصل کرتا ہے۔

امریکہ اور اسرائیل کا خوف دراصل ایران کی ٹیکنالوجیکل صلاحیت سے ہے، نہ کہ موجودہ ہتھیاروں سے۔ ایران کا موقف واضح ہے کہ ہماری جوہری سرگرمیاں مکمل طور پر پرامن ہیں، لیکن ہم کبھی بھی اپنی سلامتی سے سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button