
ایران امریکہ جوہری مذاکرات کا مستقبل کیا ہوگا؟
شیعہ نیوز:عراقی تجزیہ کار اور سیاسی مبصر "نجاح محمد علی” نے مہر انٹرنیشنل ڈیسک کو "ایران امریکہ جوہری مذاکرات کا مستقبل” کے عنوان سے ایک خصوصی نوٹ بھیجا ہے جس کا متن درج ذیل ہے:
ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات عالمی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے نتائج سے علاقائی اور بین الاقوامی استحکام پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
امریکی اور علاقائی انٹیلی جنس کے ساتھ ساتھ خلیج تعاون کونسل کے ممالک کے مؤقف بالخصوص سعودی عرب اور عراق کے کردار کی بنیاد پر ان مذاکرات کے مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یمن کے خلاف مسلسل جارحیت اور صنعا میں انصار اللہ حکومت کے خلاف زمینی کارروائی کی اطلاعات، اور علاقائی ممالک کے بڑھتے ہوئے کردار کے پیش نظر، مذاکرات کو پیچیدہ چیلنجوں کا سامنا ہے، تاہم یہ مفادات کے توازن اور اسٹریٹجک دباؤ کی بنیاد پر نئے منظرناموں کا باعث بن سکتے ہیں۔
ایرانی جوہری مسئلے کے سیاسی حل کے امکانات کے بارے میں رپورٹس سامنے آنے کے بعد یہ بات قابل ذکر ہے کہ خلیج تعاون کونسل کے ممالک بشمول سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین، کویت اور عمان نے سلامتی اور اقتصادی ضمانتوں پر مشروط ہونے کے باوجود ایران اور امریکہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی حمایت میں متحد موقف اختیار کیا ہے۔
امریکی انٹیلی جنس کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ کے اندر ایران کے حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ایک قدامت پرست سخت گیر گروہ فوجی آپشنز کا مطالبہ کرتا ہے جب کہ دوسرا گروہ سفارتی بات چیت کے حق میں ہے۔
اس کے برعکس، اکتوبر 2024 میں جاری ہونے والی اسرائیلی انٹیلی جنس دستاویزات ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کی تیاریوں کی نشاندہی کرتی ہیں، جو مذاکرات کو مزید پیچیدہ بناتی ہیں۔
ایران نے بھی مشروط لچک دکھائی ہے، جیسا کہ روس کو یورینیم کے ذخائر کی منتقلی پر بات چیت اس کی مثال ہے، لیکن وہ جوہری ایندھن تک رسائی کے اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوا۔
مذاکرات کے مستقبل کے بارے میں تین ممکنہ منظرنامے
1. جامع معاہدہ: جس میں پابندیوں کو بتدریج اٹھانے کے بدلے میں جوہری پروگرام پر سخت پابندیاں شامل ہیں، جو عوامی ماحول اور رپورٹس کو دیکھتے ہوئے ممکن لگتا ہے۔
2. مذاکرات کی ناکامی: ناقابل قبول امریکی مطالبات کی وجہ سے ایران اپنے جوہری پروگرام کو تیز کر سکتا ہے اور اس طرح فوجی تصادم کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
3. عبوری معاہدہ: اہم اختلافات کو وقتی طور پر نظر انداز کرتے ہوئے، یورینیم کی منتقلی اور افزودگی کی سطح کو روکنے یا کم کرنے جیسے مسائل پر توجہ مرکوز کی جائے، جو اس وقت سب سے زیادہ حقیقت پسندانہ آپشن ہے۔
بالآخر، جوہری مذاکرات کو پیچیدہ چیلنجوں کا سامنا ہے، لیکن سعودی عرب کی قیادت میں خطے کی اہم عرب ریاستوں کی حمایت اور سفارتی حامی کے طور پر عراق کا کردار ان کی کامیابی کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔
سعودی عرب اپنے وزیر دفاع کے دورہ تہران کے ذریعے علاقائی استحکام کو یقینی بنانا چاہتا ہے جو اس کے اقتصادی مفادات کو محفوظ اور اس کے سفارتی کردار کو مضبوط بناتا ہے۔ عراق بھی ایران کے ساتھ استحکام اور ممکنہ تجارت سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر، ایک جامع معاہدے کا راستہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں، اور بڑھتی ہوئی کشیدگی سے بچنے کے لیے سفارتی بات چیت بہترین آپشن ہے جس سے خطے میں تباہ کن جنگ کے امکانات کم ہوجائیں گے۔