
جو چیز قبر اور آخرت میں کام آئے گی وہ اچھائیاں اور نیک کام ہوں گے، علامہ ریاض نجفی
شیعہ نیوز: وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر علامہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا ہے کہ عام طور پرانسان کیلئے مال و دولت غرور اور تکبر کا موجب بنتا ہے لیکن یہی مال انسان کو نہ بیماری سے بچا سکتا ہے، نہ موت سے، قرآن میں انسان کو حکم دیا گیا کہ زمین میں فساد نہ کرو، فساد صرف لڑائی، جھگڑا نہیں بلکہ ہر غلط کام فساد ہے، چاہے کسی پر ظلم ہو، غیبت ہو، ذخیرہ اندوزی ہو یا گراں فروشی، خیانت ہو یا دھوکہ دہی وغیرہ یہ سب فساد کے زمرے میں آتے ہیں۔ قرآن مجید میں سرمایہ کی بنا پر غرور کرنیوالے قارون کا واقعہ عبرت حاصل کرنے کیلئے ذکر کیا گیا ہے جس کا خیال تھا کہ اس نے یہ دولت اپنے علم و کوشش سے کمائی ہے۔ دنیا پرستوں نے اس کے مال و دولت پر حسرت کی کہ کاش ہمارے پاس بھی قارون جتنا مال ہوتا لیکن اہلِ تقویٰ نے اس فکر کی نفی کی۔
انہوں نے کہا کہ قرآنی تعلیمات کی رُو سے اِسلامی حکمران کا رہن، سہن اور طرزِ زندگی عام آدمی کی سطح پر ہونا چاہئے۔ امام علی ؑنے فرمایا ظاہری خلافت اور حکومت سنبھالنے کے بعد بھی میرا رہن سہن، لباس و خوراک غریب و نادار آدمی جیسا ہو گا تاکہ انہیں احساس ہو کہ ہمارا حاکم بھی تو ہماری حالت کے مطابق ہے۔جامع علی مسجد جامعتہ المنتظر میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے کہا کہ نعماتِ الہٰی کی قدر کرنی چاہئے۔ کسی بھی وقت چِھن سکتی ہیں۔ قدرتی آفات کے نتیجہ میں اچانک سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ سب سے بڑی نعمت پانی ہے۔ سورہ مبارکہ مُلک کی آخری آیت میں ارشاد ہوا۔ بتلاﺅ کہ اگر تمہارا یہ پانی زمین میں جذب ہو جائے تو کون ہے جو تمہارے لئے آبِ رواں لے آئے؟ نعمات سے آخرت سنوارنے کی کوشش کی جائے کیونکہ مرنے کے بعد مال سے فقط کفن ملے گا، اولاد اور دوست غسل کے بعد دفن کی حد تک ساتھ دیں گے۔ جو چیز قبر اور آخرت میں کام آئے گی وہ اچھائیاں اور نیک کام ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ انسان کی کمزوری اور بے بسی کا یہ عالّم ہے کہ پانی کے ایک گھونٹ کے گلے میں اٹکنے سے موت واقع ہو سکتی ہے اور اس کی قدر و قیمت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ مرنے کے بعد اسے ہاتھ لگانے سے غسل واجب ہو جاتا ہے جبکہ مردہ جانور کو ہاتھ لگانے سے غسل واجب نہیں ہوتا۔ حافظ ریاض نجفی نے کہا امیرالمومنین امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں دوسروں کیلئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے کرتے ہو اور جو اپنے لئے ناپسند کرتے ہو وہ دوسروں کیلئے بھی ناپسند کرو۔ جیسے اپنے اوپر ظلم پسند نہیں کرتے، دوسروں پر بھی ظلم و زیادتی نہ کرو۔ جیسے یہ چاہتے ہو کہ تمہاری غلطی معاف کر دی جائے، اس پر گرفت نہ کی جائے اسی طرح دوسروں کی غلطیاں بھی نظرانداز کرو اور ان کی گرفت نہ کرو۔ سورہ مبارکہ نور کی بائیسویں آیت میں ارشاد ہوا”۔ اور انہیں عفو و درگزر سے کام لینا چاہئے۔ کیا تم خود یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے۔۔“