جب دو بڑے دشمنوں نے دشمنی کی زنجیریں توڑ دی
شیعہ نیوز:میڈل ایسٹ آئی کی رپورٹ کے مطابق دوحہ گزشتہ کئی مہینے سے دو مخالف اور ایک دوسرے کے سر سخت دشمن سربراہوں کے درمیان ایک مختصر نشست کرانے کی کوشش کر رہا تھا۔
ایک ترک ذریعے کا کہنا تھا کہ آغاز میں اردوغان ایک ایسے شخص سے ہاتھ ملانے کے نظریہ سے متفق نظر نہيں آ رہے تھے جسے وہ ماضی میں قاتل اور ڈکٹیٹر بتا چکے تھے۔
عبد الفتاح السیسی کے ساتھ اردوغان کی اس دشمنی کی وجہ 2013 کا فوجی بغاوت تھی جس کے بعد مصر کی فوج کے سربراہ نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور اپنے مخالفین کو وسیع پیمانے پر جیلوں میں بھر دیا تھا اور انہيں سزائے موت دی تھی۔
ذریعے کا یہ بھی کہنا تھا کہ قطر دونوں ممالک کے درمیان سارے مسائل کا حل چاہتا تھا اور امیر قطر نے ورلڈ کپ کے دوران دونوں کے درمیان مصافحے کا منصوبہ بنایا تھا۔
ترکیہ اور مصرکے درمیان سال بھر تک جاری رہنے والے امن مذاکرات کے باوجود، دونوں ممالک کے تعلقات میں ابھی بھی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ لیبیا میں مفادات کے ٹکراو سے لے کر ترکیہ میں اخوان المسلمین کے رہنماؤں کی موجودگی تک ایسے مسئلے ہیں جو دونوں کی دشمنی کو طول دے رہے ہیں پھر بھی ترک حکام کو اندیشہ ہے کہ اردوغان کے ساتھ ہاتھ ملانے کے بعد مصر کا رویہ کیسا رہے گا، کیا اس سے مصر کے قانونی صدر کے طور پر عبد الفتاح السیسی کو مکمل اور باضابطہ اعتراف حاصل ہو جائے گا۔
جیسا کہ انہیں امید تھی، مصر کے صدارتی دفتر نے گزشتہ پیر کے روز ایک باضابطہ بیان میں کہا کہ دو طرفہ ملاقات تعاون کے آغاز کی علامت ہے۔ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے نزدیک لانے میں قطر میں بھی سیاسی مفاد ہے۔ جنوری 2021 سے قطر کا محاصرہ ختم ہونے بعد سے دوحہ مصر کے ساتھ اپنے تعلقات کی تعمیر کر رہا ہے۔
حالیہ مہینے میں مصر کے مرکزی بینک کو 3 بلین کی مدد انجکٹ کرکے اور عبد الفتاح السیسی کو دوحہ بلا کر، قطر اپنی کھیل کی سفارتکاری کو آگے بڑھا رہا ہے۔
یہاں ایک دوسرا مسئلہ بھی ہے جس سے قطر فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور وہ لیبیا ہے۔ کنگز کالج لندن کے انڈریاس کریگ کا کہنا ہے کہ قطر کی دلچسپی یہ یقینی بنانے میں ہے یکہ لیبیا کے بارے میں ایک خاص نظریہ کے ساتھ پورے شعبے میں تعلقات کو بہتر کیا جائے۔ قطر، لیبیا میں سرگرم غیر ملکی طاقتوں کے درمیان، ایک زیادہ مستقل سیاسی سمجھوتے کے لئے زمین تیار کرنےکی کوشش کر کرہا ہے۔