مضامین

مکہ سے کربلا تک سفر کے دوران امام حسین علیہ السلام نے کن مقامات پر قیام فرمایا؟

امام کے احکامات پر دریائے فرات سے کچھ میل دور ایک معاون دریا کے قریب خیمے گاڑھ دیے گئے۔۔ یہ دن 2 محرم 61ہجری کا تھا۔ یہ نقشہ امام حسین علیہ السلام کے اس رستے کی نشاندہی کرتا ہے جو انہوں نے مکہ سے عراق تک اختیار کیا۔ جس دن امام نے سفر کا آغاز کیا وہ دن 8 ذوالحج 60 ہجری تھا ۔ امام کے ہمراہ عورتوں اور ان کے خاندان اور دوستوں کے بچوں سمیت کل 50 لوگ عاذم سفر تھے۔

امام علیہ السلام ک چچا ابن عباس اور بھائی محمد حنفیہ اس سفر میں ان کے ہمرا نہیں تھے۔ انہوں نے امام کو الوداع کیا اور انہیں مستقبل میں پیش آنے والے خطرات سے آگاہ کیا۔ حضرت محمد حنفیہ نے ان سےکہا کہ مکہ کے لوگ اور دیگر زائرین اس بات پر حیران ہیں کہ آپ نے حج سے ایک دن قبل سفر کا عزم کیوں کیا؟ امام نے اپنے بھائی کے نام ایک خط چھوڑا جس میں ساری تفصیل بیان کر دی۔ اس خط کا متن یہ ہے

"میں نہ تو کسی کے جذبات کو ابھارنے نکلا ہوں اور نہ ہی جبر و استبداد سے کوئی کھیل کھیلنے۔ میرا مقصد امت کو صرف امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی طرف لوٹانا ہے۔ میں امت کو صرف اپنے نانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور اپنے والد علی ابن طالب علیہ السلام کے رستے پر چلنے میں مدد دینا چاہتا ہوں۔”

مکہ سے روانگی کے بعد تاریخ کی کتابوں میں 14 ایسے مقامات ہیں کا ذکر ہے جن پر امام نے یا تو قیام کیا یا لوگوں کو خطبات دیے۔ یہ مقامات درج ذیل ہیں۔

صفاح: یہ وہ مقام ہے جہاں جس کے بارے میں متعدد مورخین کا خیال ہے کہ یہاں آپ کی ملاقات عرب کے مشہور شاعر فرزدق بن غالب سے ہوئی، جب امام نے اس سے کوفہ کے حالات کے بارے میں سوال کیا تو تو اس نے کہا ” لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں مگر ان کے تلواریں آپ کے خلاف” جس پر امام نے جواب دیا اللہ جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ میں اپنا سب کچھ اس پر چھورتاہوں کیونکہ اسی نے مجھۓ حق کے رستے پر چلنے کا عندیا دیا ہے۔

ذات عرق: اس مقام پر امام کے چچا زاد بھائی عبداللہ ابن جعفر اپنے دوبیٹوں عون اور محمد کو ان کی ماں حضرت زینب علیہ السلام کے پاس لائے تاکہ وہ امام کی مدد کر سکیں۔ انہوں نے امام کو مدینہ واپس لوٹنے پر قائل کرنےکی کوشش مگر امام نے جواب دیا” میری منزل کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے:

حاجریا بطن الرمہ :اس مقام پر امام نے قیس بن مسہر کو ایک خط دے کر کوفہ بھیجا اور عراق سے آنے والے عبداللہ بن مطیع سے ملاقات کی۔ جب اس نے امام کے ارادوں کے بارے میں سنا تو انہیں روکنے کی کوشش کی۔ اس نے کہا کہ امام کوفہ والے وفادار نہیں ہیں اور ان پر یقین نہ کریں مگر امام نے اپنا سفر جاری رکھا۔

زرود: امام اس مقام پر امام کی ملاقات زہیر ابن قین سے ہوئی جو کہ اہل بیت علیہ السلام کے پیروکاروں میں سے تھا جب اس نے امام کے اردوں کے بارے میں سنا تو اپنی تما چیزیں اپنی بیوی کو دے کر اس کو گھر جانے کا کہا اور کہا کہ وہ امام کے ساتھ شہادت کی موت مرنا چاہتے ہیں۔

زبالہ: جب امام زبالہ پہنچے تو انہوں کوفے سے آنے والے دو قبائلیوں سے حضرت مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر ملی امام نے انا لللہ وہ انا الیہ راجعون عنداللہ نحتسب انفسنا یعنی ھم اللہ کے یہاں حساب کرتے ھیں اپنی جانوں کا”” پڑھا ۔ اسدی قبیلے کے افراد نے امام کو اس سفر سے روکنا چاہا مگر آپ نے انکار کر دیا ۔ یہآں آپ نے اپنے جانثاروں کو حضرت مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کی شہادت کی اطلاع دی اور بتایا کہ کوفے کے لوگ ان کی مدد پہ تیار نہیں ہیں۔ امام نے کہا آپ میں سے جو جانا چاہتے ہیں وہ چلے جائیں۔ بہت سارے قبائل کے لوگ جو امام کے ساتھ اس امید سے تھے کہ وہ مال غنیمت اکٹھا کریں اپنی غلط امیدوں کو محسوس کر کے واپس لوٹ گئے۔ امام کے ساتھ صرف 50 جانثار بچے۔

بطن عقیق: اس مقام پر امام کی ملاقات عکرمہ قبلے کے افراد سے ہوئی جنہوں نے امام کو بتایا کہ کوفہ اب مہربان شہر نہیں رہا اور اب اس پر یزیدی افواج کا گھیرا ہے ۔ کوئی بھی اس شہر میں داخل یا نکل نہیں سکتا تاہم امام اپنے ارادے میں اٹل تھے۔

صورات: امام نے ایک رات اس مقام پر قیام فرمایا اور صبح اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہاں سے جس قدر پانی ساتھ لے کر جاسکتے ہو لے لو۔

شراف: جب آپ اس مقام پر پہنچے تو آپ کے ایک ساتھی نے چلا کر کہا ہو ایک فوج کو اپنی طرف بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ امام نے ساتھیوں سے محفوظ پناہ گاہ کی طرف حرکت کرنے کا حکم دیا جو کہ ان کے پیچھے موجود پہاڑ کے دامن میں تھی۔ ایک رہنما انہیں اس پہاڑ کے قریب لے گیا۔

ذوحسم: اس جگہ امام حر کی فوج کے سو افراد سے ملے۔ وہ اس قدر پیاسے تھے کہ امام نے انہیں پانی پلانے کا حکم دیا۔ امام نے خود پیاسے سپاہیوں کوپانی پلایا۔ حتی کہ مویشیوں کو بھی پانی پلایا گیا۔ امام کی امامت میں حر اور اس کے سپاہیوں نے ظہر کی نماز ادا کی۔

امام نے حر کو کوفہ سے ملنے والے خطوط کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا اے کوفہ کے لوگوتم نے اپنے وفود میرے پاس بھیجے اور مجھے خطوط لکھے کہ کہ تمہارا کوئی امام نہیں ۔ مجھے یہاں آ کر اللہ کی راہ پر چلنے کے لیے تمہاری رہنمائی کرنی چاہیے۔ تم نے لکھا تھاکہ تمہارے معاملات کو چلانے کے لیے اہل بیت علیہ السلام سے بڑھ کر کوئی اہل نہیں اور وہ لوگ جو تم پر حکومت کر رہے ہیں وہ باطل پر ہیں اور ان کو یہ حق نہیں پہنچتا۔ تاہم اگر تم نے اپنا ذہن بدل لیا ہے، تم اپنے حقوق سے بے بہرہ ہوگئے ہو اور اپنے وعدوں کو فراموش کر بیٹھے ہو۔ میں واپس چلا جاتا ہوں تاہم حر کی فوج نے آپ کو واپس جانے سے روک دیا اور کوفہ والوں کو چھوڑ دینے کا مشورہ دیا۔

بیضہ: امام اگلے دن بیضہ پہنچے اور یہاں ایک مشہور خطبہ دیا۔ ” اے لوگو جب تم میں سے کوئی یہ دیکھے کہ ایک حاکم شب و ستم پر اتر آیا ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے احکامات کو پس پشت ڈال رہا ہے اور وہ شخص اس صورتحال کو بدلنے کے لیے اپنے عمل یا الفاظ سے اس کے خلاف کھڑا نہیں ہوتا تو پھر یہ اللہ ہی کے لیے ہے وہ کو اس شخص کو کس مقام پر رکھتا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ معاملات کس قدر پست سطح پر آ گئے ہیں ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ سچائی ناپید ہو رہی ہے اور جھوٹ اپنی حد سے بڑھ گیا ہے۔ اور جہاں تک میری ذات کا تعلق کو میں موت کو شہادت کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہوں اور میں فاسقوں اور فاجروں کے مابین زندگی کو سوائے تکلیف اور اذیت کے کچھ نہیں سمجھتا۔”

عذیب الہجانات: اس مقام پر امام حر کی فوج سے دور رہے اور طرماح بن عدی سے ملاقات کی ۔ جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ کوفہ والوں نے ان کے قاصد کو تن تنہا چھوڑ دیا کوفہ والوں کی طرف سے ان کی یہ امید بالکل ختم ہو گئی کہ انہیں وہاں سے کوئی مدد ملے گی یا وہ کوفہ میں زندہ بچ سکیں گے۔ اس موقع پر طرماح نے انہیں اپنے قبیلے کے 20،000 تربیت یافتہ لوگوں کی پیش کش قبول کرنے کی درخواست کی تاکہ وہ جنگ میں امام کی مدد کر سکیں یا کم از کم انہیں بحفاظت پہاڑوں تک واپس پہنچا سکیں۔

امام نے اب عدی کو جواب دیا” اللہ پاک تمہیں اور تمہارے لوگوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔ میں اپنے الفاظ سے نہیں پھر سکتا۔ چیزیں طے شدہ ہیں ۔ ان کے جواب سے یہ بات واضح ہے کہ انہیں خود کو پیش آنے والے خطرے کا پہلے ہی علم ہو چکا تھا اور مسلم امہ کے ضمیر کے جھنھوڑنے کے لیے ان کے ذہین میں ایک مکمل منصوبہ طے پاچکا تھا۔ وہ حجاز میں بڑے آرام سے فوج کی مدد لے سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہ کیا نہ ہی انہوں نے دستیاب جسمانی طاقت کو سامنے لانے کی کوشش کی

قصر بن مقاتل: یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ کوفہ اب ان کی منزل نہیں رہی ۔ جیسا کہ حر انہیں تنہا چھوڑنے پر تیار نہیں تھا اس نے کوفہ کو چھوڑ کر ایک نیا رستہ اختیار کیا۔ دن کو آرام کرنے کے بعد امام نے انا لللہ پڑھا۔ ان کا 18 سالہ بیٹا علی اکبر ان کے پاس آیا اور سوال کیا۔ امام نے جواب دیا کہ انہوں نے خواب میں دیکھا ہے کہ کچھ لوگ ان کی موت کا ذکر کر رہے ہیں۔ سیدنا علی اکبر نے کہا :” کیا ہم راہ حق پر نہیں؟ موت ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی اس طرح کی موت درحقیقت شان کی شہادت ہے۔

نینوا: نینوا کے مقام پر ایک قاصد ابن زید حر کے لیے ایک پیغام لے کر آیا کہ وہ امام کو نہ چھوڑے۔ امام کا قافلہ غزریہ سے گزرتا ہوا کربلا پہنچ گیا۔ امام نے ایک آۃ بھری اور اس جگہ کا نام پوچھا کسی نے بتایا کربلا۔ امام نے کہا ہاں یہی جگہ ہے کرب و بلا( ایک تکلیف اور دکھ کی جگہ۔ پھر امام نے کہا کہ ہمیں یہیں پر رکنا ہے لگتا ہے ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے ۔ یہی ہماری منزل اور ہماری شہادت کی جگہ ہے۔ یہ کربلا ہے۔

کربلا: کربلا پہنچ کر امام کے حکم کے مطابق دریائے فرات سے کچھ میل دور ایک معاون دریا کے قریب خیمے ایستادہ کر دیے گئے۔ یہ دن دو محرم 6 ہجری ( تین اکتوبر 680 قبل مسیح) کادن تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button