مضامینہفتہ کی اہم خبریں

تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کا نیا سربراہ کون ہے؟

شیعہ نیوز (پاکستانی خبر رساں ادار ہ )گذشتہ برس اکتوبر میں جس وقت یہ اعلان کیا گیا کہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا نیا سربراہ "ابو ابراہیم الہاشمی القرشی” نامی شخص ہے، جو "حاجی عبداللہ” کے نام سے معروف ہے تو اس کی شخصیت ایک پیچیدہ معمہ تھی، جس کے بارے میں دنیا کی بڑی بڑی انٹیلی جنس ایجنسیز بھی بہت کم معلومات رکھتی تھیں۔ آہستہ آہستہ اس کے بارے میں مزید معلومات سامنے آنا شروع ہوئیں اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ امریکہ کی وزارت خارجہ نے اس کا نام دہشت گرد افراد کی فہرست میں شامل کر دیا اور اس کے سر کی قیمت دس ملین ڈالر مقرر کر دی۔ فرانس کے خبر رساں ادارے نے حال ہی میں ابوبکر البغدادی کے جانشین سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں اس کے بارے میں بعض اہم حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔

اس رپورٹ میں آیا ہے: "داعش کے نئے سربراہ کا اصل نام امیر محمد سعید عبدالرحمان المولی ہے۔ وہ بہت سے القاب رکھتا ہے، جن میں سے چند معروف القاب "پروفیسر” اور "تخریب کار” ہیں۔ اس سے متعلق موصولہ تمام رپورٹس اس کی سفاکیت اور وحشیانہ پن کو ظاہر کرتی ہیں۔” داعش کا نیا سربراہ 1976ء میں موصل سے ستر کلومیٹر دور قصبے تل عفر میں پیدا ہوا۔ اس کا تعلق ایک ترکمن گھرانے سے ہے۔ عجیب اور انہونی بات یہ ہے کہ ایک غیر عرب شخص داعش کے سربراہ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ایسا گروہ جس کے زیر کنٹرول علاقہ زیادہ تر عراق اور شام کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ عراق کی مسلح افواج کے ترجمان تحسین الخفاجی اس بارے میں کہتے ہیں: "القرشی ابوبکر البغدادی کے قریبی افراد میں سے نہیں تھا۔ وہ داعش میں تیسری سطح کے اراکین میں شمار ہوتا تھا اور بنیادی طور پر اس کا تعلق عراق سے ہے۔”

تحسین الخفاجی مزید کہتے ہیں: "ابراہیم الہاشمی القرشی کو اس لئے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا، کیونکہ داعش کے سابق سربراہ ابوبکر البغدادی کے قریبی ساتھی فضائی حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔” سعودی اخبار الریاض اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے: "المولی اکتوبر 2019ء کے آخر میں ابوبکر البغدادی کے جانشین کے طور پر داعش کا نیا سربراہ مقرر ہوا۔ چونکہ اس کی شخصیت مبہم تھی، لہذا اقوام متحدہ نے جنوری 2020ء میں اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا تھا کہ انہیں عارضی طور پر داعش کا سربراہ بنایا گیا ہے اور جب تک کوئی ایسا شخص نہیں ملتا، جسے داعش میں زیادہ محبوبیت حاصل ہو، اسے سربراہ کے طور پر رکھا جائے گا۔” گذشتہ برس 24 مارچ کے دن امریکہ کی وزارت خارجہ نے سرکاری طور پر المولی کو داعش کا نیا سربراہ قرار دیا تھا۔

عراق کے انٹیلی جنس ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ داعش کا نیا سربراہ ماضی میں صدر صدام حسین کی فوج میں افسر کے طور پر فرائض انجام دیتا رہا ہے۔ اسی طرح وہ موصل یونیورسٹی سے اسلامی علوم کی تعلیم بھی حاصل کرچکا ہے۔ جب 2003ء میں امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو ابراہیم الہاشمی تکفیری دہشت گرد گروہ داعش میں شامل ہوگیا۔ 2004ء میں امریکیوں نے ابراہیم الہاشمی کو گرفتار کر لیا اور بوکا جیل منتقل کر دیا۔ اس جیل میں ابراہیم الہاشمی کی ملاقات ابوبکر البغدادی سے ہوئی اور اس کے تکفیری نظریات میں مزید پختگی آئی۔ اس کے بعد نامعلوم وجوہات کی بنا پر اسے جیل سے آزاد کر دیا گیا۔ آزادی کے بعد وہ ابوبکر البغدادی سے ملحق ہوگیا۔ ابوبکر البغدادی 2010ء میں القاعدہ کے ذیلی گروہ کا سرغنہ تھا اور بعد میں اس نے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی بنیاد رکھی۔

داعش سے ملحق ہونے کے بعد ابراہیم الہاشمی القرشی نے تیزی سے ترقی کی اور اسے پروفیسر اور تخریب کار جیسے القاب ملے۔ داعش مخالف قوتوں کے ساتھ جھڑپوں کے دوران ابراہیم الہاشمی القرشی کا سفاک اور بے رحم چہرہ مزید سامنے آگیا۔ ابراہیم الہاشمی نے اپنے آبائی قصبے تل عفر میں بڑے پیمانے پر دھماکہ خیز مواد کے کارخانے تشکیل دیئے اور دہشت گردانہ کارروائیوں کیلئے کنٹرول روم بھی تشکیل دیا۔ فرانس کی سائنس پو یونیورسٹی میں شدت پسندی کے ماہر اور تجزیہ کار جان پیر فیلیو اس بارے میں کہتے ہیں: "ابو عمر الترکمانی نے دہشت گردانہ اقدامات اور اجتماعی قتل عام میں شمولیت اختیار کرنے کے علاوہ ایزدی قبیلے کے افراد کی نسل کشی میں بھی بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس قبیلے کے افراد کو قتل کرنے کے علاوہ ان کی خواتین کو بھی غلام کے طور پر قید کیا گیا تھا۔”

رپورٹ کے مطابق موجودہ حالات کی روشنی میں داعش کے نئے سربراہ ابراہیم الہاشمی القرشی کا بنیادی مقصد داعش کا احیاء اور اسے دوبارہ طاقتور بنانا ہے۔ چونکہ یہ تکفیری دہشت گرد گروہ کافی حد تک کمزور ہوچکا ہے، لہذا شام میں تقریباً ہر تین دن میں ایک دہشت گردانہ کارروائی انجام پائی ہے۔ واشنگٹن میں اسٹریٹجک ریسرچ سنٹر کے ماہر سیٹ جونز کا کہنا ہے کہ المولی علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر داعش کی سرگرمیوں اور فعالیت میں اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ تکفیری دہشت گرد گروہ دو قسم کی حکمت عملی پر کاربند ہے، ایک مختصر مدت اور دوسری طویل المیعاد حکمت عملی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ داعش کو اچھا خاصا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے، لیکن مستقبل قریب میں یہ گروہ بہت خطرناک گروہ کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button