پاکستانی شیعہ خبریںہفتہ کی اہم خبریں

جماعت اسلامی کو کس نے استعمال کیا، علامہ سبطین سبزواری کا انکشاف

شیعہ نیوز:لاہور پریس کلب میں شیعہ علماء کونسل پاکستان کے نائب صدر علامہ سید سبطین سبزواری نے دیگر رہنماوں کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنسن کی۔ اس پریس کانفرنس میں علامہ محمد افضل حیدری، علامہ حافظ کاظم رضا نقوی، قاسم علی قاسمی، علامہ امجد علی کاظمی، علامہ حسن رضا قمی، علامہ رائے ظفر علی، مولانا سید رضا موسوی، سید علمدار بخاری، لعل مہدی خان اور سید اذہان کاظمی ڈویژنل صدر جے ایس او بھی موجود تھے۔ علامہ سبزواری نے صحافیوں سے اظہار تشکر کیا اور ترکیہ اور شام میں زلزلے میں جاں بحق ہونیوالے افراد کے لواحقین سے اظہار تعزیت کیا۔ عالمی برادری کی توجہ مبذول کراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امدادی سرگرمیوں اور متاثرین کی بحالی میں عالمی برادری بھی اپنا کردار ادا کرے۔ حکومت پاکستان کے حوالے سے اعلانات اور اقدامات قابل تحسین ہیں، لیکن یہ صرف زبانی جمع خرچ نہیں ہونا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم معاشی اور سیاسی بحرانوں میں گھرے اپنے ملک کی بات کرتے ہوئے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان شیعہ سنی نے مل کر بنایا۔ پھر فرقہ واریت اور دہشت گردی کو جواز فراہم کرنے کیلئے اختلافی مسائل کو اجاگر کیا جاتا رہا، لیکن ملک کے امن پسند قائدین نے ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کی شکل میں یہاں اتحاد وحدت کے پلیٹ فارم تشکیل دیئے۔ جس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں بہتری پیدا ہوئی، لیکن لگتا ہے کہ ملک اور اسلام دشمن عناصر یہ برداشت نہ کرسکے۔ تو چور دروازے سے متنازعہ قانون سازی کے ذریعے کچھ شرپسند استعماری عناصر اہل تشیع کو دیوار کیساتھ لگانے اور اپنا عقیدہ ہم پر مسلط کرنے کی سازشیں کرنے لگے۔ حال ہی میں ”ناموس صحابہ و اہلبیت و امہات المومنین (ترمیمی) بل“ کے مقدس نام کی آڑ میں قومی اسمبلی کے 342 ارکان میں سے صرف 25 ارکان سے بحث کئے بغیر منظور کروا لیا گیا۔ جس میں توہین کے ملزم کیلئے سزائیں بڑھائی گئی ہیں۔ اس پر ملک بھر میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

علامہ سبطین سبزواری نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ متنازعہ بل کی منظوری استحکام پاکستان کیخلاف ہے، اس بل کا مقصد ملک میں انتشار، مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ دہشتگردی پھیلانے کیساتھ شیعہ کے مذہبی حقوق کو سلب کرنے کی ایک مذموم کوشش ہے۔ جسے ان شاء اللہ کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اس حوالے سے علامہ سید ساجد علی نقوی، وفاق المدارس الشیعہ کے صدر علامہ حافظ ریاض حسین نجفی اور مفسر قرآن علامہ الشیخ محسن علی نجفی کا مشترکہ بیان ہماری پالیسی ہے۔ ہم خود ملک کی ایک بڑی سیاسی قوت ہیں اور جمہوری عوامی جدوجہد سے اپنے حقوق کا تحفظ کرنا جانتے ہیں۔ لیکن متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف، مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی جیسی قومی سیاسی جماعتیں اور اسی طرح سے علاقائی جماعتیں کہ وہ بھی شیعہ ووٹ لیتی ہیں۔ ان کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھی ہمارے حقوق کا تحفظ کریں جبکہ ہم وزیراعظم، صدر مملکت، چیئرمین سینیٹ، چیف جسٹس اور آرمی چیف سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بھی اس متنازعہ اور غیر ضروری قانون سازی کا نوٹس لیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم یاد دلانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں مختلف مذاہب اور مکاتب فکر بستے ہیں، جنہیں آئین پاکستان اپنے اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے۔ تحریک پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ، محترمہ فاطمہ جناح، راجہ محمود آباد، راجہ غضنفر علی اور متعدد کئی قائدین کا تعلق مکتب اہل بیت سے تھا، جبکہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق اہل سنت سے تھا، کبھی مسلکی بنیادوں پر بات نہیں ہوئی، انہوں نے مملکت خداداد کی جدوجہد میں قائدانہ کردار ادا کیا، لیکن کانگریسی ملاوں کے گروہ نے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور وہ قائد اعظم کو ”کافر اعظم“ قرار دیا کرتے تھے۔ انہیں سازشی عناصر کی اولادیں ملک میں انتشارپیدا کرکے امن کو تباہ اور ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی سازش میں شریک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ مکتب اہلبیت، اہلسنت کے مقدسات کا احترام کرتا ہے، باہمی احترام پر یقین رکھتا ہے اور اس حوالے سے مجتہدین کے فتاویٰ موجود ہیں۔ لیکن مقدس ناموں کی آڑ میں اہل تشیع کو ختم کرنے کی ہر سازش کو ناکام بنائیں گے۔ یہ ہمارے وجود کا مسئلہ ہے۔ ہم اتحاد بین المسلمین کے تمام پلیٹ فارموں پر نمائندگی رکھتے ہیں۔ لیکن اتحاد کا مطلب ایک مکتبہ فکر کا دوسرے میں ادغام نہیں کہ دوسرے اپنے عقائد ہم پر مسلط کریں۔ اتحاد کا مطلب اپنے عقائد پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کو تسلیم کرنا ہے۔ شیعہ صحابہ کی توہین کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور نہ ہی ہمارے عقائد کا یہ حصہ ہے۔ ہاں سب جانتے ہیں کہ ہم اہل بیت اطہارؑ کے دشمنوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ توہین صحابہ کا مبینہ الزام جو عائد کیا جا رہا ہے۔ ہم اہل علم حضرات سے پوچھتے ہیں کہ آپ کی اپنی کتابوں میں صحابہ کے درمیان جو توہین کی جاتی رہی ہے۔ اس کا کیا کرنا ہے۔ توہین رسالت اور توہین اہل بیت، جو سابقہ ادوار میں ہوتی رہی ہے، توہین کی جو سزائیں اس متنازعہ بل میں آج کیلئے تجویز کی گئی ہیں، علامتی طور پر ہی سہی، کیا یہ سزائیں ان کو دی جائیں گی، جنہوں نے ماضی میں توہین صحابہ، اہلبیت و امہات المومنین کی۔؟

انہوں نے اس حوالے سے چند اہم نکات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم احترام صحابہ اور امہات المومنین کے قائل ہیں اور جو قانون پہلے سے موجود ہے، اس کی جو بھی پوزیشن ہے، اس کو برقرار رکھنے کے بھی قائل ہیں۔
* یہ بل قرآن و سنت کیخلاف ہے، جن جرائم کی سزا قرآن و سنت میں بیان نہیں ہوئی، ہم کون ہوتے ہیں سزا تجویز کرنے والے۔
* آئین پاکستان کے مطابق کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا۔
* خود رسول اللہ کی زندگی میں صحابہ آپس میں لڑتے اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے رہے۔ سرور کائنات نے کسی صحابی کو سزا نہیں دی۔
* قرآن میں سورہ منافقون موجود ہے اور سورہ توبہ، دیگر مقامات پر بھی منافقین کا ذکر ہوا ہے۔ کہیں کوئی سزا نہیں دی گئی، حتیٰ کہ مسجد ضرار بن گئی۔

* فقہاء اربعہ نے کب اور کہاں توہین صحابہ و ازواج مطہرات کی توہین پر سزا تجویز فرمائی ہے اور کتنی سزا متعین کی ہے۔؟
* بہت سے صحابہ ایسے ہیں، جنہوں نے تین خلفاء کی حکومتوں کو تسلیم نہیں کیا۔
* اہل بیت کی محبت قرآن و سنت کے مطابق واجب ہے اور صحابہ اور امہات المومنین کا احترام ضروری ہے۔ ان کی محبت قرآن و سنت میں واجب قرار نہیں دی گئی۔
* بہت سے گناہ اور جرائم قرآن میں درج ہیں، مگر ان کی سزا متعین نہیں کی گئی۔ مثلاً غیبت، غلط القاب اور نام وغیرہ۔
* سزائے موت کا قانون کیا ہے؟ اور انسان کی زندگی کتنی قیمتی ہے۔
* اس بل میں بہت سے قانونی سقم موجود ہیں۔
* ہمارے علماء و مجتہدین نے توہین صحابہ سے منع کیا ہے اور احترام ضروری قرار دیا ہے۔

علامہ سبطین سبزواری نے کہا کہ ہماری قیادت یہ واضح کرچکی ہے کہ متنازعہ بل کالعدم، تکفیری، دہشتگرد گروہ کے ہاتھ میں خنجر دینے کے مترادف ہے۔ بل کو پیش کرنے والے ناصبی عناصر، پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد گروہ کے نظریاتی ساتھی ہیں۔ اس دہشت گرد گروہ کی طرف سے گذشتہ کچھ عرصے سے جو مقدمات درج کروائے ہیں، ان کے چند شرمناک نمونے ملاحظہ فرمائیں:
1۔ ایف آئی آر نمبر 388 تھانہ کلر کہار ضلع چکوال، تاریخ: 25 اگست 2021ء، جرم ”توہین یزید لعین“
2۔ ایف آئی آر نمبر 207 /21، تھانہ ڈھڈیال ضلع چکوال، تاریخ: 07 اگست 2021ء وجہ "جرم”؛ "ملزم” نے فیس بک پر کہا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک ہی بیٹی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہ تھیں۔
3۔ ایف آئی آر نمبر 192/21 تھانہ ڈھڈیال ضلع چکوال، تاریخ: 27 جولائی 2021ء جرم: "ملزم” نے فیس بک پر لکھا کہ” شاہ مرداں امام علی علیہ السلام کے پیروکاروں کو 18 ذی الحجہ عید غدیر مبارک ہو؛”

4۔ چند مزید ایف آئی آرز ملاحظہ فرمائیں، جو صوبہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں درج کی گئی ہیں؛
* اپنے گھر میں کونڈوں کی نیاز امام جعفر صادق علیہ السلام کھلانے پر ایف آئی آر؛
* گھر کی دیوار پر "دم دم یاعلی علیہ السلام” لکھنے پر ایف آئی آر؛
* امام حسین علیہ السلام کے قاتل عمر بن سعد پر لعنت کرنے پر ایف آئی آر؛
یہ پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں عقائد پر ہونے والا بدترین اور انوکھا ترین ریاستی سلوک ہے؛ جس کی کوئی مثال دنیا کے کسی ملک اور پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں نہیں ملتی؛ مٹھی بھر ناصبیوں کی خوشنودی کیلئے آئین پاکستان کو روندا جا رہا ہے اور مذہبی آزادی کے بین الاقوامی قانون کو پامال کیا جا رہا ہے؛ ضرورت فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنے اور ناصبیت، تکفیریت اور دہشت گردی کو روکنے اور اس کے خلاف قانون سازی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چوروں کی طرح بل "پاس” کروا کر پاکستان کے 25 کروڑ افراد کو یرغمال بنانے کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے؛ ہم اس نام نہاد غیر اسلامی، غیر آئینی، غیر انسانی بل کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کریں گے؛ یہ ہماری مذہبی آزادی اور پاکستان کی سلامتی کا معاملہ ہے، جس پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس بل کو واپس لیا جائے۔ ہم اتحاد بین المسلمین چاہتے ہیں، لیکن اگر کوئی شیعہ کو کسی مسلک میں ضم کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کی مزاحمت کریں گے۔ ہم نے ایسے کئی مذموم اقدامات کا سامنا مختلف آمریتوں کے دور میں بھی کیا اور اپنے حقوق کو منوایا۔ نام نہاد بنیاد اسلام بل کے ذریعے بھی ہمارے عقائد پر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر ہم نے اسے بھی ناکام بنایا اور چور درواز ے سے تکفیری دہشت گرد گروہ کے نظریات اور مطالبات پر مبنی بل کو بھی مسترد کرتے ہیں۔ ہم احتجاج اور مزاحمت کے تمام جمہوری پلیٹ فارم استعمال کریں گے اور اعلان کرتے ہیں کہ موقع آنے پر پارلیمنٹ کا گھیراو بھی کریں گے۔

ہم ارکان سینیٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کسی بھی ایسے بل کو منظور کرنے کی سازش میں شامل نہ ہوں، جس سے مکتب اہل بیت کے پیروکاروں کے عقائد کو سلب کیا جائے۔ یہ بل دہشتگردی اور فرقہ واریت کے نئے دروازے کھولے گا۔ پہلے بھی اس ملک میں ہزاروں افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ جسے کچھ اسلام اور ملک دشمن عناصر دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن شیعہ کی تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے سر کٹوا دیا، مگر جھکایا نہیں اور یہ آزمائش ہم کئی بار کرچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مکتب اہل بیت کی عزت و آبرو کے لئے آئندہ بھی کسی انتہائی اقدام سے گریز نہیں کریں گے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ ہم اپنے عقائد پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ان شاء اللہ ہم آئندہ بھی ثابت کریں گے کہ اہل بیت کا دشمن ہی ناکام اور نامراد رہے گا۔ ہزاروں معصوم شہریوں کے خون سے آلودہ دہشت گرد تکفیری گروہ کا سرغنہ تسلیم کرچکا ہے کہ اس بل میں انہوں نے جماعت اسلامی کو استعمال کیا۔

ہمارا سوال جماعت اسلامی کی قیادت سے بھی ہے کہ مولانا مودودی اور قاضی حسین احمد کی جماعت فرقہ پرستوں اور دہشت گردوں کی سرپرست کب سے بنی؟ یہ بات واضح ہے کہ عوام شرپسندوں کے مکروہ چہروں کو پہچان چکے ہیں۔ متنازعہ شریعت بل ہو، نام نہاد بنیاد اسلام بل ہو یا کچھ اور شیعہ قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر کوئی بھی قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ اس بل کا مقصد تشیع کو ختم کرنے کی سازش ہے۔ اگر کچھ لوگوں کے ذہنوں میں ہے کہ وہ اس بل کی آڑ میں تشیع پر حملہ آور ہوں گے تو کسی بھول میں ہیں۔ اپنی غلط فہمی دور کرلیں، ہم جان دے سکتے ہیں، مکتب اہل بیت کی توہین برداشت نہیں کرسکتے۔ ملک کو فرقہ واریت کی آگ بھی نہ جھونکو۔ صدیوں سے تاریخ میں موجود اختلافی مسائل کو نہ چھیڑیں، مشترکات کو فروغ دیں۔ لیکن فرقہ واریت جن کے پیٹ کا مسئلہ ہے، انہیں سکیورٹی ادارے نکیل ڈالیں۔ ایک بار پھر میں آپ حضرات کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button