علامہ محمد حسین نجفی کون تھے؟
علامہ محمد حسین نجفی ڈھکو گذشتہ دنوں طویل علالت کے بعد داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ گئے، مرحوم کے انتقال سے پاکستان میں ملت تشیع ایک اعلیٰ سطحی علمی شخصیت سے محروم ہوگئی ہے، انہوں نے مکتب اہلبیتؑ اور دین خدا کی تبلیغ و ترویج کیلئے کئی مشکلات برداشت کیں، علامہ محمد حسین نجفی کا شمار ان علمائے کرام میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے اس جدید دور میں بھی انتہائی سادہ زندگی گزاری۔ وہ دیگر مکاتب فکر کے علمی حلقوں میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، مرحوم عالم دین کا خاصا یہ تھا کہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود انہوں نے تشیع کے عقیدہ توحید پر ہمیشہ کھل کر بات کی، اور اس تناظر میں اہلبیتؑ کی تعلیمات، سیرت اور خط کو ہی بنیادی اصول قرار دیا۔ علامہ محمد حسین نجفی ڈھکو کی زندگی پر اگر نظر دوڑائی جائے تو مرحوم نے 10 اپریل 1932ء کو جہانیاں شاہ سرگودھا کے ایک مذہبی گھرانے میں آنکھیں کھولیں۔
1945ء میں آپکے والد تاج الدین کی وفات ہوئی اور انکی دیرینہ خواہش پر آپکی والدہ نے آپ کو ابتدائی دینی تعلیم دلوانے کے بعد مدرسہ محمدیہ جلال پور ننگیانہ سرگودھا میں داخل کروایا۔ جہاں پر آپ نے علامہ حسین بخش جاڑا مرحوم کی شاگردی اختیار کی، 1947ء میں بدھ رجبانہ جھنگ میں علامہ محمد باقر چکڑالوی سے درس نظامی پڑھا، 1949ء میں آپ علامہ سید محمد یار شاہ کے پاس جلالپور گئے اور 5 سال تک ان سے دینی تعلیم حاصل کی۔ جس کے بعد 1954ء میں نجف اشرف عراق تشریف لے گئے، جہاں آپ نے آیت اللہ سید جواد تبریزی اور محمد باقر زنجانی کے درس خارج میں شرکت کی اور سید محمود شاھرودی اور سید محسن الحکیم کے فقہ کے دروس سے بھی فیضیاب ہوئے۔ 1960ء میں مدرسہ محمدیہ کی دعوت پر نجف سے واپس آئے اور یہاں 12 سال تک مدیراعلیٰ کے فرائض سرانجام دیئے۔ علامہ محمد حسین نجفی ڈھکو نے مدرسہ سلطان المدارس اور جامعہ عقیلہ بنی ہاشمؑ کی بنیاد رکھی۔
آپ کے پاکستان میں 3 مشہور استاد تھے، جن میں علامہ محمد باقر چکڑالوی،
علامہ محمد یار شاہ نقوی مرحوم اور علامہ حسین بخش جاڑا مرحوم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نجف اشرف میں آپ کے اساتید بیشمار تھے، جن میں چند ایک آیت اللہ محسن الحکیم، سید محمود شاھرودی، سید ابولقاسم رشتی، سید جواد تبریزی، سید محمد باقر زنجانی، مدرس افغانی آقا بزرگ تہرانی اور سید عبدالاعلیٰ سبزواری شامل ہیں۔ مرحوم نے جس عنوان پر سب سے زیادہ قلم اور آواز بلند کی وہ "غلو” تھا، وہ اپنے مسلک اور مذہب کو غالیت سے پاک دیکھنا چاہتے تھے، شاید اسی وجہ سے انہیں لوگوں کی تند و تیز باتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اسی غلو کے پیشِ نظر آپ نے ایک کتاب ’’اصلاح مجالس و محافل‘‘ لکھی، اس کے علاوہ ’’اصلاح الرسوم‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ ان کے علاوہ بھی آپ نے کئی کتابیں لکھیں، جن کی تعداد کم و بیش 60 ہے۔
علامہ محمد حسین نجفی مرحوم کی لکھی گئی کتابوں میں تفسیر القرآن کے نام سے ’’تفسیر فیضان الرحمٰن‘‘ بھی شامل ہے، اس کے علاوہ آپ کی ایک کتاب ’’اثبات امامہ‘‘ نے بے حد شہرت پائی، علاوہ ازیں احسن الفوائد فی شرح العقائد، وسائل شیعہ جوکہ آیت حر آملی کی کتاب ہے، کا ترجمہ، مقتل امام حسین علیہ السلام کے حوالے سے شہرہ آفاق کتاب سعادت الدارین، اقامۃ البرھان علی البطلان تصوف والعرفان آپ کے ایسے علمی خزانے ہیں کہ جو اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے باوجود آپ کو علمی لحاظ سے لوگوں کے دلوں میں زندہ رکھیں گے۔ علامہ مرحوم نے مفاتیح الجنان جیسی عظیم دعاؤں کی کتاب ’’ذاد العباد لی یوم المیعاد‘‘ بھی لکھی۔ اس کے علاؤہ ایک مناظراتی کتاب ’’تجلیاتِ صداقت در جواب آفتابِ ھدایت‘‘ بھی آپ کا کارنامہ ہے، جس میں تشیع کے خلاف تمام تر اعتراضات کا مدلل جواب دیا گیا ہے۔
مرحوم علامہ نجفی نے علمی و تبلیغی خدمات کے ساتھ ساتھ قائدین تشیع کے شابہ بشانہ بھی ملی ذمہ داریاں بھی احسن انداز میں ادا کیں، آپ مرحوم قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ مفتی جعفر حسین، شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی سمیت علامہ سید ساجد علی نقوی کے ساتھ رہے۔ آپ کے بارے میں 2 کتابیں شائع ہو چکی ہیں، جن میں ایک ’’آیت النجفی صاحب کی عہد ساز شخصیت اور علمی کارنامے‘‘ ہے، جو افتخار حسین اعوان نے لکھی ہے جبکہ دوسری کتاب ’’مرد علم میدان عمل میں‘‘ ہے، جو کہ طاہر عباس اعوان کی تحریر کردہ ہے۔ علامہ محمد حسین نجفی 21 اگست 2023ء بروز سوموار کو قائداعظم انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد میں 91 برس کی عمر میں اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ جس کے ساتھ ہی پاکستان میں علم کا ایک باب ہمیشہ کیلئے بند ہوگیا۔ مکتب اہلبیتؑ کی تبلیغ اور ترویج کیلئے پیش کی گئی ان کی خدمات کو ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا اور اعلیٰ ترین الفاظ میں بیان کیا جائے گا۔
رپورٹ: سید عدیل زیدی