مشرق وسطیہفتہ کی اہم خبریں

کیا الجولانی ملک کو فرقہ وارانہ جنگ کی طرف لے جائیں گے؟

شیعہ نیوز:الجولانی کی سربراہی میں سلفی تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں علوی شہریوں کے قتل عام کے بعد اب دروزی فرقے کا خون بہایا جا رہا ہے۔ جب کہ الجولانی نے گزشتہ ہفتے امریکی ریپبلکن نمائندوں کوری ملز اور مارلین سٹیٹزمین کے ساتھ ملاقات کے دوران اسرائیل کے ساتھ پر امن تعلقات کا عندیہ ظاہر کر کے جمہوری چہرہ پیش کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن اب وہ ایک مشکوک سازش کے ذریعے جنوبی علاقوں میں بندوق کے زور پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

دمشق کے درندہ صفت تکفیری عناصر کا مجموعہ اب ملک کے اقتدار پر قابض ہے جولانی رژیم کی بعض عرب اور یورپی ذرائع ابلاغ کی طرف سے بنائی گئی تصویر کے برعکس، ایسا لگتا ہے کہ "کل کے دہشت گردوں” نے صرف لباس بدلا ہے جب کہ وہ اب بھی مکالمے، رواداری، شہری حقوق اور جدید طرز حکمرانی کی منطق کو نہیں سمجھ پائے۔ملک کے دروزی علاقے اشرفیہ صحنایا میں جھڑپیں اس دعوے کا ثبوت ہیں۔

کہانی کہاں سے شروع ہوئی؟

29 اپریل کو، جولانی فورسز نے دعویٰ کیا کہ دروزی قبیلے کے ایک شخص نے ایک آڈیو فائل جاری کرکے پیغمبر اسلام ص کی توہین کی ہے۔

اس دعوے کے چند گھنٹے بعد ہی "جولانی” فورسز کا ایک گروپ اشرفیہ صحنایا کے علاقے میں داخل ہوا اور مقامی باشندوں کے خلاف یورش کی۔ بظاہر اس جھڑپ کے دوران تقریباً 9 افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ علاقے میں کشیدگی میں اضافے کے بعد دروز قبیلے کے مذہبی رہنما شیخ یوسف جربو نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسی کوئی فائل ہے بھی تو یہ چند لوگوں کے ذاتی خیالات ہیں، دروز کمیونٹی کا موقف ہرگز نہیں۔

دوسری جانب جولانی سے وابستہ ایک دہشت گرد حسام الطحان نے خبر رساں ایجنسی سانا کو بتایا کہ سیکورٹی فورسز نے صحنایا کے علاقے میں اپنا آپریشن مکمل کر لیا ہے اور دمشق کے قریب تعینات ہیں۔ خود ساختہ جولانی رژیم کی وزارت خارجہ، نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ نئی حکومت شامی عوام کے تمام طبقات کے تحفظ کے لیے غیر متزلزل عزم رکھتی ہے!

اس بیان میں، دمشق نے سلفی تکفیری قوتوں کی طرف سے ملک کی اقلیتوں کے خلاف کیے جانے والے جرائم کا ذکر کیے بغیر، غیر ملکی مداخلت پر تشویش کا اظہار کیا۔

نیتن یاہو کا خواب

شام کی سابق حکومت کے زوال کے بعد سے اسرائیلی حکام، خاص طور پر نیتن یاہو، ساعر، اور کاٹز، شامی اقلیتوں جیسے دروز اور کردوں کے حامیوں کے طور پر نمودار ہوئے ہیں۔ انہوں نے متعدد بیانات جاری کرکے دعویٰ کیا کہ کچھ گروہ شامی اقلیتوں کی نسل کشی کرکے دمشق میں ایک قسم کی اسرائیل مخالف حکومت قائم کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں! یہ مضحکہ خیز دعویٰ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب اکثر ماہرین کا خیال تھا کہ اسد کا خاتمہ امریکہ، اسرائیل، ترکی اور اردن کا مشترکہ منصوبہ ہے۔

گزشتہ چار ماہ کے دوران اسرائیلی فوج دروزیوں کی حمایت کے بہانے جنوبی شام میں داخل ہوئی ہے اور گولان کی پہاڑیوں کی شامی فورسز کو زمینی اور فضائی حملوں سے نشانہ بنایا ہے۔

حال ہی میں جولانی فورسز اور دروزیوں کے درمیان تازہ جھڑپوں کے دوران تین دروز شہریوں کو مقبوضہ فلسطین کے ہسپتالوں میں لے جایا گیا!

نیتن یاہو اور کاٹز نے ایک مشترکہ بیان بھی جاری کیا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے گولان ہائٹس کی فورسز کو نشانہ بنایا جو ڈروز پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہی تھیں۔
ٹائمز آف اسرائیل نے فوجی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملہ ہرمیس 450 ڈرون کے ذریعے کیا گیا۔

جولانی رژیم کی ڈگمگاہٹ

شام سے اسد کے انخلاء کے چند منٹ بعد، نیتن یاہو نے ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ 1974 کے معاہدے سے دستبردار ہو گئے ہیں۔ شام کی دفاعی صلاحیتوں کی تباہی اور صیہونی حکومت کی طرف سے عرب ملک کی سرزمین کے ایک حصے پر قبضے نے "حلب کاغذی ہیرو” کو متعدد انٹرویوز میں یہ دعویٰ کرنے پر مجبور کیا کہ نیا شام اب اسرائیل کے لیے خطرے کا باعث نہیں ہے!

اس نے مزید آگے بڑھ کر العربیہ کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ شام میں ایران اور اسرائیل جنگ کے دہانے پر ہیں، لیکن ان کے اس اقدام نے تل ابیب حکومت کی سلامتی کو یقینی بنا دیا ہے۔ اب الجولانی ایک ایسے وقت اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہیں جب نہ صرف جنوبی شام میں ٹوٹ پھوٹ کا خطرہ زیادہ ہے بلکہ فرقہ وارانہ جنگ شروع ہونے کا بھی پہلے سے زیادہ امکان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جولانی کی کمان میں دہشت گردوں نے برسوں تک "نفرت،” "تکفیر” اور "جنگ” کی مشق کی ہے، اور وہ صرف گلے میں ٹائی لگا کر حکومت کرنا نہیں سیکھ سکتے۔ ایسے حالات میں شام کی نئی دہشت گرد حکومت کے روشن مستقبل کا تصور نہیں کیا جا سکتا اور شام جلد ہی ایک بڑے بحران سے دوچار ہوگا۔

اگر یہ منظر نامہ درست ہوا تو اسد کے شدید ترین ناقدین کو شام کی آزادی اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لئے چراغ لے کر کوئی مسیحا تلاش کرنا پڑے گا۔

نتیجہ

الجولانی خود غیر قانونی ہتھیاروں کا سہارا لے کر شام کی جائز حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہوئے تھے، لیکن انہوں نے باغی فورسز یا نسلی اقلیتوں کے ہتھیاروں کو ضبط کرنے کا مضحکہ خیز مطالبہ کیا ہے۔

دوسری طرف، دروز، کرد اور علوی مانتے ہیں کہ دمشق کی نئی حکومت دشمن قوتوں یا تکفیری خطرات سے ان کا دفاع کرنے میں ناکام رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ انہیں نااہل جولانی حکومت کے حوالے کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔

ایسے حالات میں غزہ کے عوام کے قتل عام کے نشے میں دھت صہیونی شام کے اندرونی حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حرمون کی پہاڑیوں، قنیطرہ اور سویدا کے کچھ حصوں پر قبضہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

تزویراتی حکمت عملی کا تقاضا ہے کہ موجودہ مشکل سے بچنے کے لیے الجولانی کو کانگریس کے آگے جھکنے یا ابراہیم معاہدے میں شامل ہونے کے بجائے، جوابی طاقت کی تلاش کرنی چاہیے۔

یہ توازن رکھنے والی قوت یقینی طور پر ترکی نہیں ہو سکتی، کیونکہ انقرہ، نیٹو کے رکن اور اسرائیل کے سیکورٹی پارٹنر کے طور پر، نیتن یاہو حکومت سے ٹکرانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ باکو میں ترک اور اسرائیلی افسران کے درمیان کشیدگی پر قابو پانے والی بات چیت اس دعوے کا ثبوت ہے۔ اپنی آزادی اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے شام کے پاس مزاحمت کی طرف لوٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز کرنے کے شام کے لیے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button