اہم پاکستانی خبریں

افغانستان نے دہشتگردی کے حوالے سے خدشات پر کارروائی نہ کی تو معاہدے ختم کردیں گے، پاکستانی سفیر

شیعہ نیوز:پاکستان نے افغان سرزمین سے دہشت گردی کے حوالے سے اپنے خدشات پر کارروائی نہ کرنے پر افغانستان کو تمام معاہدے ختم کرنے سے خبردار کردیا۔

پیر کے روز افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی ایلچی، سفیر محمد صادق خان نے خبردار کیا کہ اگر طالبان حکمران افغان سرزمین سے جنم لینے والی دہشت گردی کے حوالے سے اسلام آباد کے بڑھتے ہوئے خدشات پر کارروائی کرنے میں ناکام رہے تو ’ افغانستان کے ساتھ تمام معاہدے ختم ہو جائیں گے۔’

پاکستانی حکام طویل عرصے سے یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ مسلح گروپ کے سرغنہ پاکستانی سرزمین پر حملے کرنے کے لیے افغان سرزمین سے کارروائیاں کرتے ہیں، کابل ان دعوؤں کی تردید کرتا ہے۔

پاکستانی خصوصی ایلچی نے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آئی پی آر آئی) میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا،’ تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی ) ایک چیلنج ہے، ایک بڑا چیلنج ہے۔ اسے برداشت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہمارے نوجوان، اور بچے روزانہ شہید کیے جا رہے ہیں۔ بعض علاقوں میں تو شہادتیں عام ہوگئی ہیں کہ اس مسئلے کو نظر انداز کرنا مجرمانہ فعل ہوگا اور ہمیں اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔انہوٓں نے مزید کہا کہ ’ افغانستان کو اس معاملے پر ہمارے ساتھ کام کرنا ہوگا، اگر وہ ہمارے ساتھ کام نہیں کرتے تو تمام معاہدے ختم ہو جائیں گے، اور کچھ نہیں ہو پائے گا، کسی بھی چیز پر کوئی پیش رفت نہیں ہوگی۔’

محمد صادق خان کے تبصرے ان کے افغان وزرا اور اعلیٰ حکام کے ساتھ وسیع تر امور پر بات چیت کے تقریباً دو ہفتے بعد سامنے آئے ہیں، اس گفت و شنید میں کالعدم ٹی ٹی پی اور پاکستان میں تشدد کے ذمہ دار دیگر گروہوں پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔

محمد صادق خان نے گزشتہ سال دسمبر میں افغانستان کا دورہ کیا تھا، یہ دورہ ان کی افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی کے طور پر دوبارہ تقرری کے چند دن بعد ہوا تھا۔

محمد صادق خان نے اپنے خطاب میں مزید کہا،’ اگر ہم سرحد کے دوسری جانب سے آنے والی دہشت گردی کو روک سکیں تو پاکستان افغانستان کے لیے بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔’انہوں نے نشاندہی کی،’ ہمیں پاکستان میں بھی مسائل درپیش ہیں اور یہ اس کا ایک جزو ہے، لیکن افغانستان سے آنے والے لوگ بھی ایک ایسا مسئلہ ہیں جسے روکنا ہوگا، جسے سمجھنا ہوگا۔’

پاکستان اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ان سے ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے اور انہیں سرحد عبور کرنے سے روکنے کا مطالبہ کر تا رہا ہے۔

طالبان حکومت نے 2022 میں کابل میں پاکستان اور ٹی ٹی پی رہنماؤں کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی تھی، تاہم، یہ مذاکرات ناکام ہو گئے تھے اور اس وقت کی حکومت نے مذاکرات روک دیے تھے۔

محمد صادق خان کا مزید کہنا تھا،’ حل ضروری نہیں کہ لوگوں کو مارنا ہو، حل ضروری نہیں کہ لوگوں کو گرفتار کرنا اور پاکستان کے حوالے کرنا ہو۔ حل انہیں روکنا ہے، حل انہیں قابو میں رکھنا ہے، جس پر میرے خیال میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔’

طالبان حکومت نے پاکستانی خصوصی ایلچی کے تازہ ترین ریمارکس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے، تاہم، وہ افغان سرزمین پر ٹی ٹی پی کی موجودگی کے بارے میں پاکستان کے موقف کو قبول نہیں کرتی۔
خیبر پختونخوا ( کے پی ) کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے بھی ایک مقامی ہوٹل میں ’ خیبر پختونخوا کے سلامتی اور حکمرانی کے چیلنجوں کا جامع جائزہ’ کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کیا۔

فیصل کریم کنڈی نے کہا، ’ اگرچہ سیکیورٹی فورسز نے امن قائم کرنے کے لیے نمایاں قربانیاں دی ہیں، لیکن دہشت گردی، بدعنوانی، غربت، اسمگلنگ، منشیات کی اسمگلنگ اور سیاسی مسائل جیسے معاملات اب بھی بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔’انہوں نے مزید کہا، ’ اس سلسلے میں، ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک مضبوط سول ملٹری معاہدے کی ضرورت ہے، پائیدار حکمرانی کی ضرورت ہے، جو جوابدہ اور موثر ہو۔’

انہوں نے کہا کہ مقامی حکومتوں کا بااختیار ہونا ضروری ہے اور مالی پہلوؤں اور نظاموں کو متعلقہ مہارت رکھنے والوں کے ذریعے چلایا جانا چاہیے۔سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا امیر حیدر خان ہوتی نے عسکریت پسندی سے لڑنے کے لیے عوام کی ملکیت کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا، ’ہمیں دہشت گردی سے لڑنے اور اسے سیاست سے بالاتر مسئلہ سمجھنے کے لیے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔‘

دریں اثنا، سابق سینیٹر ستارہ ایاز نے اس موقع پر کہا:’ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم دو دہائیوں سے زائد عرصے سے لڑ رہے ہیں اور اب بھی لڑائی اور اندرونی لڑائی میں الجھے ہوئے ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ’ہم نوآبادیاتی اثرات سے نمٹنے میں ناکام رہے ہیں، اور فاٹا اور کے پی کی ثقافتی اور تاریخی حرکیات کو سمجھے بغیر، ہم نے انضمام کی کوشش کی۔’

لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) حسن اظہر حیات نے کہا،’ ہم کے پی میں سماجی فضا کھو رہے ہیں۔ ہمیں کے پی کے لوگوں کی ضروریات کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگ آپریشنز سے تنگ آ چکے ہیں، اور وہ علاقے میں طالبان جیسی دہشت گرد تنظیموں کو بھی نہیں چاہتے۔’انہوں نے کہا، ’ ہمیں کے پی کے لوگوں اور نوجوانوں کی ترقی اور بااختیار بنانے میں سہولت فراہم کرنے کی ضرورت ہے، مقامی اور قبائلی افراد کو شامل کریں کیونکہ مرکز مقامی افراد کی رائے کے بغیر اچھی پالیسیاں نہیں بنا سکتا۔’

آئی پی آر آئی کے صدر ڈاکٹر رضا محمد نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ ’ گزشتہ برسوں کے دوران، مصائب سے لڑنے اور مزاحمت کرنے کے باوجود، دہشت گردی کے مسائل برقرار رہے۔’

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا تزویراتی محل وقوع خطے میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ شمال سے جنوب تک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بدقسمتی سے، یہ پورا خطہ غیر مستحکم ہے، جب داخلی عدم استحکام ہوتا ہے تو افراتفری پھیلانےو الی بیرونی قوتیں پھلتی پھولتی ہیں، لوگوں کی شکایات کا فائدہ بیرونی اور اندرونی قوتیں اٹھاتی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button