مشرق وسطی

یمن شطرنج کی بساط؛ کیا امارات کے اتحادی الحدیدہ پر قبضے کی کوشش میں ہیں؟

شیعہ نیوز:امریکی فضائیہ کی جانب سے یمن کے وسطی، شمالی اور مغربی علاقوں پر حملوں کے ایک ماہ بعد اب جنوبی یمن سے دارالحکومت صنعاء، الحدیدہ، صعدہ اور تعز کی جانب زمینی حملے کی چہ مگوئیاں زور پکڑ رہی ہیں۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق، یہ حملہ متحدہ عرب امارات کے حمایت یافتہ جنوبی عبوری کونسل کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ جنوبی جنگجوؤں کو امریکی فوج کی فضائی مدد حاصل ہوگی۔

ذرائع کے مطابق جنوبی یمن میں جنگی تیاریاں، صیہونی ساختہ ریڈارز کی صومالیہ کے شمال میں تنصیب اور یمن کی جنگ کے طویل المدتی اثرات عرب امارات کو دفاعی حکمت عملی اپنانے پر مجبور کررہے ہیں۔ دوسری جانب سعودی عرب آٹھ سالہ جنگ کے تلخ تجربے اور آرامکو کی تنصیبات پر حملوں کے بعد کسی نئے محاذ میں الجھنے سے گریز کررہا ہے۔

یمن پر امریکی جارحیت

15 مارچ 2025 سے یمن پر امریکی حملے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ اس سے قبل امریکہ نے برطانوی حمایت کے تحت غزہ کی حامی انصار اللہ کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی، مگر خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہوئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جوبائیڈن کی کمزور پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس صورتحال سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ واشنگٹن نے اپنے جنگی جہازوں، طیارہ بردار بحری بیڑوں اور کروز میزائلوں کے ذریعے یمنی انفرا اسٹرکچر کو نشانہ بنایا ہے، جس کے نتیجے میں شدید انسانی بحران اور متعدد عام شہری شہید ہوئے۔ یمن پر امریکی حملوں پر عالمی ردعمل دوہرا رہا۔ چند مغربی ممالک نے امریکی کارروائیوں کی حمایت کی، جبکہ کئی آزاد ریاستوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے یمن کی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔

علاقائی سطح پر ایران اور روس نے یمن کی کھل کر سیاسی و عسکری حمایت کی جبکہ سعودی عرب نے محتاط رویہ اپنایا ہے۔ ان حملوں سے آبنائے باب‌المندب جیسے اہم آبی راستے کی سیکیورٹی پر بھی سوالات اٹھے ہیں، جو عالمی توانائی رسد کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

دوسری جانب امریکی جارحیت کے خلاف یمن میں عوامی مزاحمت میں شدت آئی ہے اور قوم اندرونی طور پر مزید متحد ہورہی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ صرف قلیل المدتی اہداف پر نظر رکھے ہوئے ہے، اور اگر یہی روش جاری رہی تو نہ صرف یمن بلکہ پورے خطے میں جنگ کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے۔

عرب امارات کے اتحادی امریکی زمینی فوج کے روپ میں

تازہ ترین صورتحال کے مطابق متحدہ عرب امارات کے حمایت یافتہ جنوبی عبوری کونسل کی فورسز امریکی فضائیہ کی مدد کے ساتھ الحدیدہ بندرگاہ پر بڑے حملے کی تیاری کررہی ہیں۔ یہ بندرگاہ اس وقت یمنی حکومت کے کنٹرول میں ہے اور بحیرہ احمر سے یمن کا واحد زمینی رابطہ اور عالمی سطح پر ایک اہم تجارتی گزرگاہ سمجھی جاتی ہے۔ فوجی اور سیاسی سطح پر اس ممکنہ حملے کے سنگین اثرات متوقع ہیں۔ الحدیدہ پر قبضہ طاقت کے توازن کو متاثر کرسکتا ہے، تاہم انصار اللہ کی متوقع سخت مزاحمت اور گوریلا طرز کے حملے اس کارروائی کو ایک نئی اور کثیر الجہتی جنگ میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ امریکی فضائیہ کی جانب سے جنوبی علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی اس بات کی علامت ہے کہ واشنگٹن یمن میں براہ راست مداخلت میں شدت لارہا ہے جس کے نتیجے میں دیگر علاقائی طاقتوں کا شدید ردعمل سامنے آسکتا ہے۔ ساتھ ہی جنوبی عبوری کونسل الحدیدہ پر قبضے کے ذریعے نہ صرف اپنی علیحدگی پسند تحریک کو تقویت دے گی بلکہ ملک کے مزید علاقوں پر علیحدگی کا مطالبہ بڑھاسکتی ہے۔

یہ صورتحال سعودی حمایت یافتہ سابق صدر منصور ہادی کی جماعت اور جنوبی عبوری کونسل کے درمیان تناؤ میں اضافے کا باعث بنے گی اور یمن کے ممکنہ بٹوارے کو مزید نزدیک کرے گی۔ اس کے ساتھ ابوظہبی کی کوشش ہے کہ بحیرہ احمر کے ساحل پر اپنا اثر بڑھایا جائے، جبکہ سعودی عرب چاہتا ہے کہ الحدیدہ ایسے گروہوں کے ہاتھ میں رہے جو اس کے قریب ہوں۔ مفادات کا یہ ٹکراؤ، ان دونوں امریکی اتحادیوں کے درمیان یمن میں آئندہ تعاون کو متاثر کرسکتا ہے۔

انسانی بحران کا خطرہ

الحدیدہ یمن میں انسانی امداد کا سب سے بڑا راستہ ہے۔ اگر یہ بندرگاہ محاصرے یا حملے کی زد میں آتی ہے تو یمن میں لاکھوں افراد خوراک، ادویات اور بنیادی سہولیات سے محروم ہوسکتے ہیں۔ بین الاقوامی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اس علاقے میں کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی انسانی المیے کو مزید سنگین بناسکتی ہے۔ امریکی فضائی حملوں اور ممکنہ زمینی لڑائی کے نتیجے میں عام شہریوں کی بڑی تعداد متاثر ہوسکتی ہے جس سے عالمی سطح پر سخت ردعمل اور مذمت سامنے آسکتی ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ واشنگٹن اور اس کے اتحادی اس وقت فوجی اہداف اور انسانی بحران جیسے نتائج کے درمیان کشمکش میں ہیں۔ اگر سیاسی حل کے بغیر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو نہ صرف یمن میں جنگ ختم نہیں ہوگی بلکہ اس کے مزید پھیلنے کا خطرہ بھی بڑھ جائے گا۔ یمن پر امریکہ اور اس کے اتحادی اپنی جارحیت میں شدت لائیں تو یمنی فوج مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور خلیج فارس کی تیل تنصیبات کو نشانہ بناسکتی ہے۔

حاصل سخن

طوفان الاقصی نے یہ حقیقت آشکار کردی ہے کہ بحیرہ احمر کے خطے میں مزاحمتی محاذ کا اصل ستون، یمن کی اسلامی مزاحمت یعنی انصار اللہ ہے۔ یمنی مجاہدین نے بحیرہ احمر اور باب المندب کے علاقے میں 350 سے زائد عسکری کارروائیوں کے ذریعے کئی برسوں بعد بین الاقوامی بحری تجارتی راستوں کو تبدیل کردیا۔ انصار اللہ کے مسلسل حملوں نے صہیونی بندرگاہ ایلات کی تجارتی سرگرمیوں کو مکمل طور پر مفلوج کردیا جس سے جنوبی مقبوضہ فلسطین کی معیشت کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔

یمنی عوام کی استقامت اور اسرائیل کے خلاف ان کی بے مثال جنگی حکمت عملی نے دنیا کو حیران کردیا ہے۔ بحیرہ احمر اور مقبوضہ علاقوں میں امریکی اور صہیونی تنصیبات پر میزائل اور ڈرون حملوں سے استکباری طاقتوں کو شدید دھچکہ لگا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف خطے میں طاقت کے توازن میں تبدیلی کی علامت ہے بلکہ عالمی سیاست میں نئی صف بندی کا آغاز بھی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button