مشرق وسطی

حماس کے بارے میں صیہونی جرنیل کا اعتراف

شیعہ نیوز: غاصب صیہونی جرنیل میخائیل میلشتاین نے عبری زبان میں شائع ہونے والے اخبار یدیعوت آحارنوٹ میں ایک کالم لکھا ہے، جس میں اس نے حماس کو فلسطین کی حزب اللہ قرار دیا ہے۔ میخائیل میلشتاین صیہونی فوج کی انٹیلی جنس تنظیم امان میں فلسطین کے شعبے کا سربراہ بھی ہے۔

اس نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ سیف القدس معرکے کے چھ ماہ بعد تک غزہ کی پٹی میں پائے جانے والا امن بالکل اس صورتحال جیسا ہے، جو دس مئی سے پہلے خطے پر حکمفرما تھی، لیکن بیت المقدس میں شدت پسندی میں اضافہ ہوتے ہی سیف القدس معرکے کا آغاز ہوگیا۔

اس نے لکھا کہ اسرائیل بظاہر طولانی امن و امان کی صورت میں کامیابی محسوس کر رہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ حماس پر اپنی مرضی کے مطالبات مسلط کرنے میں شکست اور ناکامی سے روبرو ہوا ہے۔

صیہونی جرنیل میخائیل میلشتاین نے مزید لکھا کہ یہ تنظیم (حماس) عملی طور پر خطے پر اپنا کنٹرول قائم کئے ہوئے ہے اور حتی اقتصادی صورتحال بہتر ہو جانے کی بدولت خطے پر اپنا کنٹرول بڑھاتی جا رہی ہے۔دوسری طرف غزہ کی پٹی پر فلسطین اتھارٹی کا اثر و رسوخ روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے اور قطر مرکزی کردار ادا کرنے میں مصروف ہے۔ مصر کے ساتھ قطر غزہ کی پٹی پر سب سے زیادہ اثرانداز ہونے والا ملک ہے۔

اس صیہونی افسر نے لکھا کہ حماس کے ساتھ جنگ بندی کے نتیجے میں اسرائیل اس تنظیم سے کوئی مراعات حاصل نہیں کر پایا جبکہ مغربی کنارے میں حماس کی حامی قوتیں مسلح ہو رہی ہیں۔ اس نے مزید لکھا کہ حماس اس وقت غزہ کی پٹی میں امن و امان کے قیام کو پہلی ترجیح دے رہی ہے اور اس کے نتیجے میں اس خطے پر حماس کا کنٹرول مزید بڑھتا جا رہا ہے۔

صیہونی جرنیل نے لکھا کہ ممکن ہے کہ مختصر مدت کا معاہدہ اسرائیل کیلئے آرام دہ ثابت ہو، لیکن طویل عرصے میں اسرائیل کو درپیش خطرات میں اضافہ ہوگا۔

واضح رہے کہ اسرائیل حماس کو غزہ کی پٹی میں موجود ایک ناقابل انکار حقیقت کے طور پر دیکھتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح اسرائیل حزب اللہ لبنان کو دیکھتا ہے۔

میخائیل میلشتاین نے مزید لکھا کہ اس صورتحال سے یہ تلخ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ اسرائیل ہرگز غزہ کا اسٹریٹجک متبادل نہیں پائے گا کیونکہ حماس کی حکومت کا خاتمہ، غزہ کی پٹی کو غیر مسلح کرنا اور اس خطے میں بین الاقوامی فورسز تعینات کرنا حقیقت پر مبنی منظرنامے نہیں ہیں۔

اسرائیل کے پاس یہ فیصلہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ حماس کے ساتھ طویل المیعاد معاہدے انجام دے، جبکہ حماس ان معاہدوں سے فائدہ اٹھا کر اپنی پوزیشن مزید مضبوط بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button