مضامین

موساد بین الاقوامی شعبے کا مسئول تل ابیب اسرائیل میں قتل؟

شیعہ نیوز:ایرانی جنرل اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے سربراہ حاج قاسم سلیمانی اور عراقی رضاکار فورس حشد الشعبی کے کمانڈر ابو مھدی المھندس کی ساتھیوں سمیت بغداد میں شہادت کے بعد دنیا میں دو الفاظ پر مشتمل ایک اصطلاح کو بہت شہرت حاصل ہوئی، "سخت انتقام۔” یہ دو الفاظ ایران سمیت مقاومت اسلامی کے حامیوں اور مخالفین کے نجی حلقوں میں زیر بحث رہتے ہیں۔ بعض اسے طنزیہ انداز سے اپنے نجی حلقوں میں دہراتے ہیں تو بعض اسے بعض واقعات سے ملا کر کسی حد تک اپنے حامیوں کو مطمئن کرتے ہیں۔ البتہ حامیوں اور مخالفین دونوں ہی میں ایک ٹولہ ایسا بھی ہے، جو دونوں موقف کے مابین لٹکتا رہا ہے۔ قدس فورس کے سربراہ کی شہادت کو جنوری 2020ء سے اب تک گیارہ ماہ بیت چکے ہیں۔ جمعہ 27 نومبر 2020ء کو ایران کے محکمہ دفاع کے شعبہ جدت اور تحقیق کے سربراہ سائنسدان محسن فخری زادہ کو ایران کے صوبہ تہران کے علاقے آب سرد میں شہید کر دیا گیا۔ ان کو اس طرح ٹارگٹ بنا کر قتل کرنے کے حوالے سے پچھلی تحریر میں سکیورٹی کے نظام کے پس منظر میں چند نکات بیان کیے تھے۔ ایک اور تحریر اسی وسیع تر موضوع کے ایک اور پہلو سے متعلق لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس کی کہ شب جمعہ تین دسمبر 2020ء کو ایک ٹارگٹ کلنگ تل ابیب میں ہوئی اور ہفتہ کی صبح تک پاکستان بھر میں اس واقعہ سے متعلق ایک وڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔ خبر یہ آئی کہ اسرائیل کے خفیہ سکیورٹی ادارے موساد کے بین الاقوامی خفیہ کارروائی شعبے کے مسئول فہمی ہناوی کو تل ابیب میں قتل کر دیا گیا۔ ایک چوراہے کے ٹریفک سگنل کی ایک جانب رکی ایک گاڑی پر فائرنگ کی گئی تھی۔

تل ابیب وہ شہر ہے جسے اسرائیل نے دارالحکومت بنایا اور جن ممالک نے اسے تسلیم کیا، ان کی نظر میں تل ابیب ہی اسرائیلی دارالحکومت ہے۔ تو اس زاویئے سے یہ قتل اسرائیلی دارالحکومت میں عین شہر کے اندر ہوا ہے۔ گو کہ یہ خبر پہلے سوشل میڈیا پر آئی۔ اس کے بعد ایرانی فارسی نیوز ویب سائٹس پر یہ خبر کی صورت میں نشر کی گئی اور اب تک یہ امریکا کے جنگ مخالف خبری ادارے ویٹیرنز ٹو ڈے، روس کے خبر رساں ادارے اسپوتنک، سی این این ترک چینل سمیت دنیا جہاں میں پھیل چکی ہے۔ نکتہ یہ بھی ہے کہ آب سرد تہران شہر کا حصہ نہیں بلکہ صوبہ تہران کے شہر دماوند کی طرف کا علاقہ ہے جبکہ تل ابیب میں جہاں قتل ہوا، یہ تل ابیب شہر کے اندر کا علاقہ ہے۔ یاد رہے کہ امریکا نے بغداد ایئرپورٹ کے نزدیک حاج قاسم سلیمانی اور ابو مھدی مھندس کو ہدف بنا کر غیر قانونی طور قتل کیا اور اس کی علی الاعلان ذمے داری بھی قبول کی۔ امریکا نے وہ فضائی میزائل حملہ بھی شب جمعہ ہی کیا تھا۔

البتہ عراق کے مقامی وقت اور شمسی نظام کے مطابق جمعہ تین جنوری کو فجر سے قبل وہ سانحہ رونما ہوا، یعنی دو اور تین جنوری2020ء کی درمیانی شب۔ اس کے بعد آٹھ جنوری 2020ء کو پوری دنیا میں ایک بریکنگ نیوز چلی کہ ایرن سے چند میزائل فائر ہوئے، جنہوں نے عراق میں عین الاسد میں امریکی افواج کے زیر استعمال فوجی اڈے کو زمین بوس کر دیا۔ فوجیوں کے جانی نقصان کو امریکا نے چھپا دیا، گو کہ عراق کے باخبر افراد نے یہ تصدیق کی کہ لاشیں اور زخمی امریکا نے اسرائیل منتقل کر دیئے تھے۔ البتہ بعد ازاں قسطوں میں فوجیوں کو ہونے والے کم ترین نقصان کی جزوی تفصیلات امریکی حکومت جاری کرتی رہی۔ چونکہ ایران نے شہید قاسم سلیمانی کے قتل کا سخت انتقام لینے کا اعلان کیا تھا، اس لیے دنیا نے سمجھا کہ شاید ایران نے سخت انتقام لے لیا۔ لیکن تب رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای صاحب نے عین الاسد والی کارروائی کو محض ایک تھپڑ قرار دیا۔

میڈیا کی اصطلاح میں ماضی میں ایک لفظ ٹریلر استعمال ہوتا تھا۔ آج ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں اسی لفظ کو اپ ڈیٹ کرکے ٹیزر کہتے ہیں۔ یعنی کسی مکمل واقعہ سے متعلق ایک مختصر سا وڈیو کلپ کہ جس میں انتہائی مختصر سی جھلک یا جھلکیاں ہوں، تاکہ دیکھنے والے اگلی قسط کا بے چینی سے انتظار کریں۔ عین الاسد میں امریکی فوجی تنصیبات کو ملبے اور کباڑ خانے میں تبدیل کرنے کے بعد سے اس سطح کی کوئی بڑی کارروائی دنیا نے نوٹ نہیں کی۔ یوں لگا معاملہ دب چکا۔ البتہ ایران کے اندر سخت انتقام کی اصطلاح کی بازگشت تھمنے کا نام نہیں لیتی تھی کہ ایرانی سائنسدان محسن فخری زادہ کو قتل کر دیا گیا۔ یقیناً یہ سبکی کی بات تھی۔ لیکن اس سانحہ میں اور سانحہ بغداد ایئرپورٹ میں جو سب سے زیادہ اہم فرق تھا، وہ یہ کہ تب امریکی حکومت نے علی الاعلان آن ریکارڈ کہا کہ امریکا نے یہ کارروائی کی ہے۔ اب کی مرتبہ امریکا اور اسرائیل نے رسمی طور پر آن ریکارڈ اس قتل کی ذمے داری قبول نہیں کی۔

البتہ صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں کے مصداق میڈیا کے ذریعے پوری دنیا پر دھاک بٹھا دی کہ اسرائیلی موساد نے یہ کارروائی کروائی ہے۔ سی این این نے تو بغیر کسی نام اور عہدے کے یہ رپورٹ نشر کر دی کہ ایک سینیئر امریکی آفیشل (یعنی اعلیٰ حکومتی عہدیدار) نے اس کارروائی میں اسرائیل کا نام لیا۔ بعض نے رپورٹ دی کہ اسرائیل نے امریکا کے تعاون سے ایسا کیا۔ اب تین اور چار دسمبر کی درمیانی شب تل ابیب میں ایک ہائی پروفائل قتل ہوا، لیکن اسرائیلی حکومت اور میڈیا ہی نہیں بلکہ سارے بین الاقوامی ذرائع اس خبر سے متعلق مکمل سکوت کی پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی موساد کی جانب سے دوسرے ملکوں کے اندر اس نوعیت کی کارروائیوں کے شعبے کا مسئول فہمی ہناوی قتل ہوا یا نہیں۔؟ اس کے لیے ایک آسان سا کام ہر کوئی کرسکتا ہے۔ جمعرات تین دسمبر کی شام تک اسرائیلی میڈیا کی رپورٹنگ کے موضوعات کا موازنہ مذکورہ خبر کے وائرل ہونے کے بعد کے موضوعات سے کرلیں۔ اب اسرائیلی میڈیا میں شدت کے ساتھ ایران کے خلاف موضوعات کو ہائی لائٹ کیا جا رہا ہے۔ کبھی امام خامنہ ای صاحب کے حوالے سے کوئی من پسند جھوٹی ٹیبل اسٹوری نشر کر رہے ہیں تو کبھی ایران سے متعلق دیگر موضوعات پر منفی خبریں دے رہے ہیں۔ یہ یکایک کیا ہوا ہے، جو اسرائیلی اس طرح کنفیوزڈ اور پریشان ہیں۔

ویٹرینز ٹوڈے امریکا کے مطابق اسرائیل کے اندر بہت سے قتل ہوچکے ہیں، لیکن مغربی میڈیا ان خبروں کو چھپا رہا ہے۔ اس نے ایک ایکسکلوسیو رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر یہ خبریں نشر ہو جائیں یا ان کی تصدیق کر دی جائے تو اسرائیل کے اندر جو آبادکار ہیں، وہ خود بخود اسرائیل کے اندر ہونے والے ان چند قتل اور اس کا مقاومت (اسلامی) سے لنک جوڑ لیں گے۔ اس طرح اسرائیلی مزید خوفزدہ ہوں گے اور اپنی سلامتی سے متعلق غیر یقینی کیفیت میں مبتلا ہوں گے۔ اس سوال کا جواب بھی تلاش کیا جانا چاہیئے کہ جس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے حاج قاسم اور ابو مھدی مھندس کے قتل کی ذمے داری علی الاعلان آن ریکارڈ قبول کی تھی، اس امریکا نے عین الاسد فوجی اڈے پر اپنے نقصانات کو بھی چھپایا تھا۔ ان دنوں امریکی سی آئی اے کے ایران سے متعلق شعبے کے مسئول مائیکل آندرے کی افغانستان میں جہاز کریش میں ہلاکت کی خبریں بھی آئیں، لیکن امریکا نے اس کی تفصیلات کو بھی دنیا سے آج تلک چھپا رکھا ہے اور اب اسرائیلی موساد کے فہمی ہناوی کا تل ابیب کے اندر قتل دنیا سے چھپایا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ نام فہمی ہناوی اس کارروائی سے پہلے کیا کبھی کسی نے سنا بھی تھا!؟ یعنی ایک آدمی کہ جس کا نام بھی دنیا سے پوشیدہ رہا ہو، اسے مار کر اس کا نام اور عہدہ بھی بیان کیا جائے، یہ بجائے خود ایک کارنامہ ہے۔ لیکن علی الاعلان رسمی طور پر اس قتل کی محض وڈیو اور خبر نشر کی گئی ہے، علی الاعلان رسمی طور پر ذمے داری کسی نے قبول نہیں کی ہے۔

اس تصویر کا ایک اور رخ یہ ہے کہ محسن فخری زادہ کے قتل سے پہلے سعودی عرب کے شہر نیوم میں اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور موساد کے سربراہ یوسی کوہن نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی موجودگی میں سعودی ولی عہد سلطنت ایم بی ایس سے ملاقات کی تھی۔ وہ ایک خفیہ اجلاس تھا لیکن اس کی خبر اسرائیلی میڈیا نے لیک کر دی تھی۔ یعنی یہ اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کی غیر اعلانیہ آشیر باد تھی کہ وہ خبر لیک کی گئی۔ اس کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے ایک انٹرویو میں اس سے متعلق سوال کا گول مول جواب دیا کہ سمجھدار کے لیے اشارہ کافی ہے۔ لیکن فہمی ہناوی کے قتل کے بعد امریکا و اسرائیل میں موت کی سی خاموشی طاری ہے۔ حتیٰ کہ سعودی خفیہ ادارے کے سابق سربراہ اور امریکا میں سابق سعودی سفیر ترکی الفیصل آل سعود کہ جو اسرائیل کے ساتھ سعودی خلیجی اتحادی ممالک کے رسمی تعلقات کا اصل پس پردہ کردار ہیں، انہوں نے بھی اب اپنے اس اسرائیل دوست کردار کو عرب عوام کے سامنے برعکس ظاہر کرنے کا تاثر دینے کی کوشش کی ہے۔

ماننا پڑے گا کہ مقاومت اسلامی کی جانب سے چند ایسی جوابی کارروائیاں، چند ایسے ردعمل بالکل خاموشی اور کامیابی کے ساتھ انجام پائے ہیں کہ زایونسٹ امریکی سعودی خلیجی بلاک امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی جس انداز میں اور جس سطح پر دوطرفہ خوشیاں منا رہے تھے، اب اسے ہائی پروفائل سے بتدریج میڈیم سے لو پروفائل میں لے گئے ہیں۔ اور اب بھی بعض معاملات کی وجہ سے وہ خوف کی ایسی کیفیت میں مبتلا ہیں کہ سعودی عرب نہ صرف یہ کہ اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات کو علی الاعلان تسلیم کرنے سے ڈر رہا ہے بلکہ اب کھسیاہٹ اور خفت مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یعنی میڈیا کی عام اصطلاح میں ڈیمیج کنٹرول کے لیے ایران کے خلاف فیک نیوز کا سہارا لینے پر مجبور ہوچکا ہے۔ کہاں زایونسٹ امریکی سعودی خلیجی بلاک (یعنی عربی غربی عبری اتحاد) کہ جس کا دنیا کی سیاست اور اقتصادیات پر ایک طویل عرصے سے کنٹرول ہے کہ جو جدید ترین ٹیکنالوجی اور مہلک ترین ہتھیاروں سے لیس ہے۔ کہاں ایران کہ جس پر چار عشروں سے اس بالادست بلاک نے مختلف شعبوں میں اعلانیہ اور غیر اعلانیہ جنگ مسلط کررکھی ہے۔

اگر ایران اب تک نظام ولایت فقیہ، نظام جمہوری اسلامی کے ساتھ دنیا کے نقشے پر اپنے وجود کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے، اگر ایران خود اپنی بقاء کی جنگ لڑنے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ فلسطین، مقبوضہ لبنانی اور شامی علاقوں کی آزادی کی مسلح دفاعی جہدوجہد کرنے والی مقاومتی اسلامی تحریکوں کی مدد کرنے میں کامیاب رہا ہے، تو منصف مزاج دانشور، تجزیہ و تحلیل گر، صحافی اور عوام اور خواص اسے ایران کی جیت ہی کہیں گے، نہ کہ ناکامی اور اگر ایران کی قیادت میں مقاومت اسلامی کے بلاک دنیا کے سب سے بڑے بلاک کو ٹٹ فار ٹیٹ یعنی جیسے کو تیسا جواب دیتا آرہا ہے تو یہی اس مادی و فانی دنیا میں کسی کی فتح، کامیابی و کامرانی اور یادگار جیت کا معیار ہے۔ مقاومت اسلامی سے منسلک افراد فرض شناس ہیں، مظلوم ضرور ہیں مگر ظالم نہیں بلکہ عادل ہیں۔ چونکہ وہ خود پر لازم واجب فرائض کی بجاآوری میں سستی اور کاہلی نہیں کرتے، اس لیے ان کی جوابی کارروائی بھی بروقت ہوتی ہے اور اللہ کے خاص لطف و کرم سے کامیاب بھی ہوتی ہے۔ البتہ جنگوں میں یہ نہیں ہوتا کہ اہل حق کا نقصان نہیں ہوتا، اسلامی تاریخ ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جانی و مالی دونوں لحاظ سے باطل بھی حق کا نقصان کرتا رہا ہے۔ کیونکہ جہاں افراد سست اور کاہل ہوں، جہاں افراد حالات کی درست تشخیص نہ کر پائیں، درست سمت میں حرکت نہ کریں، وہاں نتیجہ ناکامی کی صورت میں ہی سامنے آنا ہے۔ یہ جملہ مقاومت اسلامی کے حامیوں سمیت ہر مسلمان کے لیے ہے کہ سبھی اپنا موازنہ ان کامیاب تحریکوں سے کرکے فرق کو محسوس کریں اور اپنی ذمے داری کو انجام دیں۔
تحریر: محمد سلمان مہدی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button