مشرق وسطی

انصاراللہ نے متحدہ عرب امارات پر حملے کی دھمکی دے دی

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) انصاراللہ کے سیاسی دفتر کے ایک رکن نے ابوظہبی کی طرف سے یمن کے اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل جزائر میں مشکوک سرگرمیاں جاری رکھنے پر متحدہ عرب امارات پر حملے کی دھمکی دی ہے۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق انصاراللہ یمن کے سیاسی شعبے کے ایک رکن عبداللہ النعمی نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ وہ بہت ہوشیار ہے اور یمن کے بعض صوبوں اور جزائر پر قبضہ کرنے کے بعد انہیں صیہونی، برطانوی اور امریکی فوجیوں کے حوالے کرنے سے وہ یمنی بلیسٹک میزائلوں اور ڈرون حملوں سے بچ جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ متحدہ عرب امارات یمنی عوام سے تکبرانہ رویہ اختیار کر کے گمان کرتا ہے کہ یمنی قوم جاہل اور پسماندہ ہیں اور انہیں دوستوں اور دشمنوں کا علم نہیں ہے، اگر یمن کے لوگوں کے پاس پتھر کے علاوہ کوئی بھی چیز نہ ہوتی تو اس وقت بھی متحدہ عرب امارات کو اپنی سوچ اور اندازوں پ نظر ثانی کرنے کی ضرورت تھی اب تو یمن کے پاس بلیسٹک میزائل اور ڈرون بھی موجود ہیں جن سے ہم اس چھوٹے سے ملک کو درست راستے اور دنیا کے سامنے توبہ کرنے پر مجبور کر دیں گے۔

النعمی نے کہا کہ یمنی افواج اس وقت مکمل طور پر الرٹ ہیں اور وہ کسی بھی دفاعی اقدام یا حتیٰ حملے کے لئے تیار ہیں، جنگ بندی کے دوران یمنی افواج نے دفاعی صلاحیت اور دفاعی صنعت کے میدان میں خاصی ترقی کر لی ہے اور اسی دفاعی ترقی سے محاصرہ اور جنگ کے جاری رہنے کی صورت میں دشمن کو وہ سبق دیں گے جس سے وہ نادم ہوکر اپنی انگلیاں کاٹنے پر مجبور ہو جائے گا۔

دوسری جانب یمنی انصاراللہ کے سیاسی شعبہ کے رکن نے بحیرہ احمر میں مصر کی موجودگی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا عرب ممالک اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانا چاہتا ہے اور وہ اس طریقے سے پسِ پردہ رہ کر اس جنگ کو مانیٹر کرنے  کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کی کوشش ہے کہ مصری صدر عبدالفتاح السیسی کو اس جنگ میں جھونک دے جس کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں، اس طرح سے وہ سعودی عرب اور متحدہ امارات کو سستانے کا موقع دینا چاہتا ہے اور ممکن ہے کہ کل سومالیہ، جبوتی اور اریٹیریا وغیرہ کو بھی اس جنگ کا حصہ بنا دے۔

انصاراللہَ یمن کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب مصری فوج نے چند دن پہلے اعلان کیا ہے کہ اس کی بحری فوج بحیرہ احمر، باب المندب اور خلیج عدن میں ذمہ داریاں سنبھال رہی ہے اور یہ فیصلہ بین الاقوامی مشترکہ مشن فوج کی سربراہی مصر کے حصے میں آنے کے بعد کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ اس فوج میں مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن اور امریکہ شامل ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button