مضامینہفتہ کی اہم خبریں

سانحہ (APS) پشاور کے ننھے شہداء کی عظمت

کسی ملک، تنظیم یا ادارہ کی ترقی کیلئے بچوں اور نوجوانوں کا مستقبل ہی امید کی کرن ہوتا ہے, اس لئے دشمن ہمیشہ اس جگہ نشانہ بناتا ہے, جہاں سے دشمن کو خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ 16 دسمبر 2014ء وطن عزیز پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن کہا جا سکتا ہے، جس میں دشمن نے پھول جیسے نونہالوں کو بے دردی سے شہید کیا۔ وطن عزیز پاکستان کے یہ نونہال اپنی قوم کا اثاثہ تھے۔ اسلامی ملک ایران کے عظیم لیڈر امام خمینی (رہ) نے اسلام اور امن کے دشمنوں کو مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ تم سوچ رہے ہو میرے پاس فوج نہیں، جو تم سے جنگ کرے گی تو جان لو کہ میری یہ فوج ماؤں کی گود میں موجود ہے، جو ضرور تم سے جنگ کرے گی اور ایسا ہی ہوا کہ اس نونہال فوج نے ایک دن دشمن کو ہمیشہ کیلئے ناامید کر دیا۔ آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے 150 کے قریب یہ بچے پاکستان کی سالمیت و حفاظت کیلئے بنیادی ستون تھے، جن کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔

سانحہ آرمی پبلک سکول ایک دردناک موضوع ہے، بالخصوص اس موضوع پر لکھنے کیلئے خون جگر چاہیئے کہ اس موضوع کا ہر لمحہ انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ ہم سے ان ماؤں کی سسکیاں نہیں سنی جاتیں، جن کے لعل کو بے دردی سے مسل دیا گیا ہو۔ ہم سے ان بوڑھے والدین کی فریاد نہیں سنی جاتی، جن کی آرزؤوں کو کچل دیا گیا ہو۔ ہم سے ان بہنوں کی آرزؤوں کو کھوکھلا ہوتے ہوئے نہیں دیکھا جاتا، جو ان ننھے بھائیوں سے امید لگائے بیٹھی تھیں۔ ہم سے ان دوستوں کی آہ و بکا نہیں سنی جاتی، جو اپنی دوستی پر فخر کرتے تھے۔ آہ! اس دردناک سانحہ پر لکھنے کا نہ حوصلہ ہے اور نہ ہی ہمت، پرنم آنکھوں اور کانپتے ہاتھوں سے جو کچھ لکھا، ان ننھے شہداء کیلئے ہدیہ ہے، جن کی قربانیوں نے وطن عزیز پاکستان کو جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔

16 دسمبر کی صبح ماؤں نے اپنے نونہال فرشتوں کو علم کی شمع روشن کرنے کیلئے سکول بھیجا تھا، مگر دہشتگرد جو کہ ہمیشہ سے اسلام، امن اور انسانیت کے دشمن رہے ہیں، انہی سفاک، ظالم، وحشی اور درندہ صفت لوگوں نے گلستان کو ویران کر ڈالا۔ قرآن مجید میں ان وحشی لوگوں کو أولئك كالأنعام بل هم أضل کہا گیا کہ یہ جانوروں سے بھی بدتر لوگ ہیں، یہ دل تو رکھتے ہیں مگر احساس نہیں، ان کے پاس آنکھیں تو ہیں مگر دیکھتے نہیں، ان کے کان تو ہیں مگر یہ سنتے نہیں۔ آج بھی نونہال بچوں کی چیخیں بلند ہو رہی ہیں مگر یہ دہشتگرد جو کہ قرآنی آیت کا واضح مصداق ہیں، جانوروں سے بدتر اور انسانیت کے قاتل ہیں۔ یہ لوگ نہ ان درد بھری آوازوں کو سن پا رہے ہیں اور نہ ہی لہولہان انسانیت کو دیکھ پا رہے ہیں۔

ایسا دکھ، ایسا غم، ایسی تکلیف، ایسی اذیت، ایسا سانحہ دنیا نے نہ کبھی دیکھا تھا اور نہ کبھی سنا تھا۔ اس واقعہ میں 150 بچے شہید ہوئے اور 250 کے قریب زخمی ہونے والے پھول جیسے بچوں نے موت کو اتنے قریب سے دیکھا کہ زندگی بھر بھلا نہیں سکتے۔ آخر اس سانحہ کو ایک محب وطن شہری کیسے بھلا سکتا ہے کہ یہ عظیم پھول وطن کا عظیم سرمایہ تھے۔ اس واقعے کے اثرات آج بھی نہ صرف متاثرہ بچوں اور والدین پر ہیں بلکہ ہر درد دل رکھنے والے پاکستانی پر بھی ہیں۔ جب بھی اس سانحہ کا تذکرہ آنکھوں اور کانوں سے گزرتا ہے، ہر محب وطن کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔

150 معصوم فرشتوں اور ان کے اساتذہ کی شہادت نے قربانی کی نئی تاریخ رقم کی، جس پر پوری قوم ان ننھے شہداء کو سلام عقیدت پیش کرتی ہے۔ ان کی عظیم شہادت کے بعد قوم کے اندر ایک نیا جذبہ ابھرا، جس نے قوم کو دہشتگردی کے خلاف متحد کر دیا۔ ننھے فرشتوں کی قربانی اور المناک سانحے نے قوم کو طاقت میں تبدیل کر دیا۔ حزن و ملال کو حریت، امید اور استقلال میں بدل دیا۔ عرصہ دراز سے وطن عزیز کے گلی و کوچوں میں خون بہانے والے دہشتگردوں کو کچلنے کے لیے پوری قوم متحد ہوگئی۔ سیاسی جماعتیں، پاک فوج اور مسند نشین ایک پیج پر جمع ہوگئے۔ پاک فوج نے قوم کی امیدوں پر لبیک کہا اور اچھے برے کی تمیز ختم کروا کر انسانیت کے دشمنوں کے خاتمے کا عزم صمیم کیا۔ یہ سب کچھ ان معصوم فرشتوں کے پاک خون کا نتیجہ تھا، جو سرعام سکول میں بہایا گیا تھا۔ معصوم فرشتوں کی آواز آج بھی ہمیں پکارتی ہے کہ:
ہمارا خوں بھی شامل ہے تزئین گلستان میں
ہمیں بھی یاد رکھنا، چمن میں جب بہار آئے

دہشتگردی کے خلاف یہ جنگ ہماری اپنی جنگ ہے۔ ہماری آنے والی نسلوں، ہمارے مستقبل اور پاکستان کی بقاء کی جنگ ہے۔ یہ جنگ پرامن معاشروں کے قیام کی جنگ ہے۔ یہ جنگ اسلام کے احیاء کی جنگ ہے۔ یہ جنگ ارادوں، حوصلوں، امیدوں کی جنگ ہے۔ یہ جنگ کسی ادارے، تنظیم یا حکومت کی جنگ نہیں بلکہ ایک قوم کی جنگ ہے۔ اس جنگ میں وہی کامیاب ہے، جس کا ارادہ پختہ ہوگا۔ اس جنگ میں وہی کامیاب ہے، جو صبر، حوصلہ، ہمت اور استقلال کے ساتھ دہشتگردی کے خلاف قیام کرے گا۔ بلاشبہ ان ننھے شہداء کی عظمت سے ہمیں یہ سب کچھ ملا ہے۔ جب بھی معصوم شہداء کا ذکر آتا ہے پوری قوم دہشتگردی کے خلاف متحد ہو جاتی ہے۔ یہ سب کچھ شہداء کے پاکیزہ خون کی عظمت و برکت کے سبب ہے۔ لیکن آج کچھ شدت پسند عناصر نہ صرف امن و سلامتی کو نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ پیار بھرے اسلام کا نام بھی بدنام کر رہے ہیں اور بالواسطہ یا بلاواسطہ ان کا تعلق و رابطہ صیہونی و عالمی طاقتوں سے ضرور ملتا ہے۔

کبھی یہ طاقتیں ناموس صحابہ کے نام پہ بدامنی پھیلاتی ہیں تو کبھی یہ طاقتیں گستاخ رسول کے سر قلم کے بہانے قتل و غارت کرتی نظر آتی ہیں۔ لہذا اس پرخطر دور میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم وطن عزیز کیلئے انتہاء پسندی و شدت پسندی کے خلاف متحد ہو جائیں اور شہداء کے خون کو رائیگاں ہرگز نہ جانے دیں۔ صرف گانوں یا ترانوں پر اکتفاء کر لینے سے ذمہ داری انجام پذیر نہیں ہو پاتی، ہمیں عملی طور پر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم ایک پرامن قوم ہیں اور شہداء کے راستے پر گامزن ہیں۔ ان شاء الله وہ دن دور نہیں، جب وطن عزیز پاکستان پرامن ہوکر دنیا میں ایک ترقی یافتہ ملک کے طور پر مانا جائیگا۔ خدا کرے کہ میرے ملک کے چراغ ہمیشہ روشن رہیں اور دشمن کبھی بھی اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے نہ پائے۔ بقول احمد ندیم قاسمی:
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
تحریر: شاہد عباس ہادی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button