صدی کی ڈیل ناکام ہوگی
تحریر: صابر ابومریم
صدی کی ڈیل جس کے بانی امریکہ اور اسرائیل ہیں، اس ڈیل کے بارے میں اس سے قبل مقالہ جات میں قارئین کی خدمت میں حقائق بیان کئے جا چکے ہیں۔ کس طرح امریکہ اور اسرائیل مل کر خطے کی چند عرب ریاستوں کے ہمراہ فلسطین کا سودا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ غرب ایشیاء کے ممالک میں اپنے پنجوں کو گاڑھنے کے لئے امریکہ و اسرائیل نے داعش کے قیام و مدد کے بعد اب نیا راستہ اختیار کر لیا ہے، جس کو صدی کی ڈیل کہا جا رہا ہے۔ اس ڈیل کا چرچہ گذشتہ ڈیڑھ برس سے گونج رہا ہے اور عنقریب اب یہ ڈیل اپنے مقرر کردہ منصوبہ کے تحت بحرین کے دارالحکومت منامہ میں جون کے آخری ہفتہ میں سنائی جائے گی اور پھر تمام مسلمان و عرب ممالک سے اس پر دستخط کرنے کو کہا جائے گا۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ صدی کی ڈیل ناکام ہوگی تو یہ بات کوئی معمولی بات نہیں ہے، مگر دوسری طرف حقیقت یہی ہے کہ صدی کی ڈیل کو مزاحمت کا سامنا ہے۔ یہ مزاحمت فلسطین کی مزاحمت ہے، لہذا اگر اب یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ صدی کی حقیقت ڈیل نہیں بلکہ فلسطینیوں کی مزاحمت ہے، جو دنیا کی سپر طاقتوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکی ہے۔ فلسطینیوں کا مسلسل حق واپسی احتجاج اور مارچ اس ڈیل کو ناکام کرنے کے لئے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ امریکہ اس ڈیل کے تحت یہی چاہتا ہے کہ فلسطینیوں کا واپسی کا حق ختم کر دیا جائے اور فلسطین سے جبری طور پر جلا وطن کئے گئے فلسطینی اپنے مقبوضہ علاقوں میں واپسی کا مطالبہ نہ کریں۔ دوسری طرف پوری دنیا میں اس وقت فلسطینیوں کے حق واپسی کی گونج سنائی دے رہی ہے اور یہی بات امریکہ اور اس کے شیطان حواریوں کے لئے پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔
اگر فلسطین کی سیاسی جماعتوں اور دھڑوں کی بات کی جائے تو سب کے سب ایک ہی صفحہ پر نظر آرہے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کہ جس کے فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ اختلافات موجود ہیں، لیکن صدی کی ڈیل کے معاملہ پر فلسطینی اتھارٹی اور پی ایل او نے بھی واضح موقف اپنا رکھا ہے اور کہا ہے کہ صدی کی ڈیل کو مسترد کرتے ہیں، امریکہ فلسطین کی با غیرت اور شجاع قوم کو پیسوں سے نہیں خرید سکتا۔ فلسطین کے عوام نے ستر سالہ جدوجہد صرف اس لئے کی ہے کہ فلسطین آزاد ہو اور یہاں بسنے والے عرب فلسطینی اپنے وطن اور گھروں کو واپس آسکیں۔ اسی طرح فلسطین کے پڑوس میں موجود اردن کی حکومت نے بھی امریکہ کے اس فارمولہ کو مسترد کر دیا ہے۔ تاحال رسیدہ اطلاعات کے مطابق چند ایک اور ممالک بھی اسی فہرست میں شمار ہوتے ہیں کہ جنہوں نے صدی کی ڈیل کو مسترد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے، ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے کہ جس نے صدی کی ڈیل کو مسترد کیا ہے۔ البتہ چند ایک عرب ریاستیں جن میں سعودی عرب، عرب امارات، بحرین اور دیگر صدی کی ڈیل کی مکمل حمایت میں مصروف عمل ہیں۔
صدی کی ڈیل کی ناکامی کے بارے میں خود اب امریکی عہدیداروں نے بھی اعتراف کرنا شروع کر دیا ہے، جو کہ خود امریکہ کی سب سے بڑی شکست کے مترادف ہے۔ خود امریکہ کے احمق ترین صدر ڈونالڈ ٹرمپ اپنے ایک بیان میں کہہ چکا ہے کہ امریکی وزیر ریاست صدی کی ڈیل کی کامیابی سے متعلق شک و شبہات کا شکار ہیں اور ان کو ایسا لگتا ہے کہ صدی کی ڈیل ناکامی کا شکار ہو جائے گی۔ واشنگٹن پوسٹ نامہ امریکی جریدے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بیان ہوا ہے کہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں امریکی وزیر ریاست پومپیو اور اسرائیلی عہدیداروں کے مابین ہونے والی آڈیو ریکارڈنگ کے منظر عام پر آنے سے صدی کی ڈیل کی کامیابی مزید مشکوک ہوگئی ہے۔ اس آڈیو میں سنا گیا ہے کہ امریکی عہدیداران اسرائیلی عہدیداروں سے کہہ رہے ہیں کہ یہ منصوبہ یعنی صدی کی ڈیل قابل قبول نہیں ہے، اس کا نفاذ ناممکن ہوگا اور یہ شدت کے ساتھ مسترد کر دی جائے گی۔
اسی طرح امریکن سی آئی اے کے سابق چیف نے بھی اپنے خیالات میں کہا ہے کہ یہ ڈیل کسی صورت قابل عمل نہیں ہے، کیونکہ اس میں اگر دو باتیں اچھی ہیں تو نو باتیں خراب بھی موجود ہیں، لہذا اس طرح کے کسی بھی فارمولہ کو کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق اسی اجلاس میں اعلیٰ سطحی سفارتکاروں اور عہدیداروں کے مابین ہونے والی گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ امریکی حکام نیتن یاہو کی حکمت عملیوں اور عام انتخابات میں کامیابی کے بعد حکومت بنانے میں ناکامی سے بھی شدید پریشان اور مایوس ہیں اور ان باتوں کا اظہار صہیونی جعلی ریاست کے عہدیداروں سے اسی اجلاس میں کیا گیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان، ایران سمیت قطر اور اردن ایسے ممالک ہیں کہ جنہوں نے غرب ایشیاء کے لئے امریکہ کے نام نہاد فارمولہ صدی کی ڈیل کو اس لئے مسترد کیا ہے، کیونکہ اس منصوبہ میں فلسطین کا سودا کرنے کی بات کی گئی ہے۔ جہاں اس ڈیل میں عرب دنیا کے کئی شہزادوں کو مستقبل میں بادشاہ بنانے کے خواب دکھائے گئے ہیں اور کئی افراد کو پچاس پچاس سال کے اقتدار اور بادشاہت کی امریکی ضمانت دی گئی ہے، وہاں اسی منصوبہ میں فلسطین کے مظلوم عوام کے حقوق پر شب خون بھی مارا گیا ہے۔ تاریخ کی ایسی بھیانک سازش رچائی گئی ہے کہ جس کے نتیجہ میں اصل ریاست فلسطین کو ختم کرکے اس کی جگہ صہیونیوں کی جعلی ریاست کو حتمی شکل دینے کی بات کی گئی ہے۔
صدی کی ڈیل کے معاملہ پر فلسطینی عوام اور سیاسی دھڑوں سمیت مزاحمتی دھڑے سب کے سب متحد ہو کر ایک آواز ہیں کہ اس ڈیل کو مسترد کرتے ہیں اور فلسطینی عوام کی یہ آواز اس بات کا باعث بن رہی ہے کہ اب بالآخر صدی کی ڈیل کو ناکامی کا سامنا ہے، جس کا اعتراف خود اس ڈیل کو بنانے والے امریکی عہدیدار کرتے نظر آرہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم دنیا کے وہ ممالک اور حکمران جو امریکی کاسہ لیسی میں مصروف عمل ہیں، وہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئے فلسطین کے ساتھ ہونے والی اس خیانت کا حصہ اور شراکت دار نہ بنیں، کیونکہ یقیناً اس خیانت کاری پر مبنی صدی کی ڈیل کو مسترد اور ناکام ہونا ہے۔ عنقریب یہ ہونے والا ہے اور خدا کا وعدہ تو یہی ہے کہ وہ ظالموں کے مقابلے میں مظلوموں کی مدد کرتا ہے۔