مضامین

کیا سعودی عرب کے لیے شام فوج بھیجنا خطرناک ہوگا؟

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) سعودی عرب اپنی فوج کو داعش سے لڑنے کے لیے شام کی سرزمین پر بھیج سکتا ہے، اس ملک کی وزارت دفاع نے کہا۔ ریاض کسی بھی داعش مخالف زمینی فوجی کارروائی میں شریک ہونے کو تیار ہے۔

وزارت دفاع کے ایک اہلکار نے کہا کہ سعودی خصوصی دستوں کے ہزاروں فوجیوں کو ترکی کے ساتھ مل کر شام میں متعین کر سکتا ہے۔ دونوں ملک بشار اسد کی حکومت کے کٹر مخالف ہیں اور ان دونوں نے شام کے بحران کے آغاز سے ہی ان کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔
ریاض اور انقرہ بیک وقت روس، یونان، اسرائیل اور دوسرے ملکوں کی شدید تنقید کا نشانہ بنے کہ ان کے انتہا پسند گروہوں سے تعلقات ہیں۔

ترک حکام پر ایک سے زیادہ بار داعش کے ساتھ کاروبار کرنے کا الزام لگا ہے۔ صدر اردوگان کے داماد کو جہادی گروہوں کے ساتھ تیل کے کاروبار میں ملوث کیا گیا ہے۔ جہاں تک الریاض کا تعلق ہے اسے ہمیشہ تشدد پسند انتہاپسندوں کی تربیت گاہ بتایا جاتا ہے۔

عربی اور اسلامی تعلیمات کے ماہر اور عرب برطانیہ افہام باہمی کی کونسل کے ڈائریکٹر کرس ڈوئل نے ریڈیو سپتنک کو دیے گئے ایک تخصیصی انٹرویو میں بتایا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو شام کے سیاسی مسائل پر غور کرنا چاہیے بصورت دیگر داعش کے ساتھ نمٹنا ناممکن ہو جائے گا۔

“داعش اور القاعدہ جیسے گروہ ان خطوں میں پروان چڑھتے ہیں جہاں ریاست کی عملداری کمزور ہوتی ہے اور جہاں کوئی حکومت نہیں ہوتی۔ موجودہ صورت میں وہ شام میں سنی عرب برادریوں کی شکایات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کو احساس ہے کہ ان کی نہ تو کوئی نمائندگی کرتا ہے اور نہ ہی کوئی ان کا تحفظ کرتا ہے”۔

اس ضمن میں بات کرتے ہوئے کہ شام میں سعودیوں اور ترکوں کو کون مدعو کرے گا ڈوئل نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو اس پر داعش مخالف اتحاد کو متفق ہونا ہوگا جو ساٹھ ملکوں کا اتحاد ہے۔

“میں سمجھتا ہوں کہ فی الحال کمزور بیانات ہیں، اس ضمن میں ہمیں ابھی ایک لمبا راستہ طے کرنا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ نومبر میں متحدہ عرب امارات نے کہا تھا کہ ہم زمین پر فوج بھیجنے کو تیار ہونگے اور اصل میں زمین پر ایسا نہیں ہو رہا کیونکہ سعودی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسا کرنا کہیں خطرناک ہوگا کیونکہ زمین پر فوج بھیجنے سے قتل اور اغوا زیادہ ہو جائیں گے۔ اگر اس کے فوجیوں کو سرعام قتل کیا گیا تو یہ اس کے لیے بہت برا ہوگا چنانچہ ابھی ایک طویل راستہ طے کیا جانا ہے”۔

تاہم مبصرین دیکھ رہے ہیں کہ سعودی عرب پر کچھ نہ کچھ کرنے کے لیے زور بڑھ رہا ہے، باوجود اس کے کہ بقول ڈوئل کے بمباری کرنا دباؤ کو کم نہیں کر رہا زیادہ سے زیادہ ملک اس اتحاد میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔

“ضرورت یہ ہے کہ ان سیاسی مسائل پر غور کیا جائے جن کو حل کرکے داعش کے خلاف ایک متحدہ محاذ بنایا جا سکتا ہے۔ ایک اور چیلنج جو ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ نہ صرف سعودی عرب اور ترکی بلکہ وہ دوسرے ملک بھی جو کہنے کو تو داعش کے مخالف ہیں مگر وہ تقریبا” سارے ہی اپنے مطابق کسی نہ کسی بڑے خطرے کا شکار ہیں۔ جیسے سعودی عرب جو داعش کو پسند نہیں کرتا مگر ایران کو بڑا خطرہ خیال کرتا ہے۔ ترکی کے لیے بڑا خطرہ کرد ہیں تو اس طرح دیکھا جا سکتا ہے کہ داعش ہمیشہ پہلی ترجیح قرار نہیں پاتی” ڈوئل نے کہا۔

ماہر موٴسوف نے مزید کہا کہ کس طرح ترکی نے داعش کے ساتھ سرحد پر کچھ سودے کرتے ہوئے کیسے صرف نظر کیا اور کس طرح کردوں کے ساتھ مناقشہ بڑی ترجیح بن گیا۔

“کرد مسئلہ ان کے لیے بڑا خطرہ ہے اس لیے ترکی نے جنگجووں کو اسلحہ، کرنسی، وسائل اور جنگجو سرحد کے اس پار لے جانے دیے یوں اس گروہ اور دیگر کئی انتہا پسند گروہوں کو بڑھنے میں مدد دی” دوئل نے کہا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button