فلسطین کی نابودی کیلئے منامہ میں کانفرنس
تحریر: احمد کاظم زادہ
کئی بار موخر کرنے کے بعد آخرکار ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے سینچری ڈیل نامی منصوبے کے اقتصادی پہلو کو متعارف کروانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس مقصد کیلئے آئندہ دو دنوں میں بحرین کے دارالحکومت منامہ میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کروائی جا رہی ہے جس کا مقصد فلسطین میں سرمایہ کاری جمع کرنا بیان کیا گیا ہے۔ فلسطین اتھارٹی اور دیگر فلسطینی گروہوں نے اس کانفرنس کی شدید مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین اس کانفرنس کے انعقاد میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس کانفرنس میں مغربی کنارے، غزہ کی پٹی، مصر اور اردن میں سرمایہ کاری کیلئے 50 ارب ڈالر کا پیکج متعارف کروایا جائے گا۔ مصر اور اردن کو شدید دباو کے تحت سینچری ڈیل میں اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
مغربی کنارے میں تعمیر کی گئی یہودی بستیاں زرخیز ترین اور اسٹریٹجک ترین زمین پر بنائی گئی ہیں اور اگر ان بستیوں کو اسرائیل کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا تو ایسی صورت میں اس علاقے میں انجام پانے والی تمام تر سرمایہ کاری درحقیقت اسرائیلی شہریوں کے فائدے میں ہو گی جبکہ وہ فلسطینیوں کے نام پر کی جائے گی۔ اگرچہ یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ سینچری ڈیل کے سیاسی حصے کو اقتصادی حصے کے بعد جامہ عمل پہنایا جائے گا لیکن گذشتہ دو سال کے واقعات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ڈیل کا سیاسی حصے پر پہلے سے عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ اس کی ایک مثال امریکہ کی جانب سے اسرائیل میں اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے قدس شریف منتقل کرنا اور گولان ہائٹس کو سرکاری سطح پر اسرائیل کا حصہ قرار دینا ہے۔ اب سینچری ڈیل کے اقتصادی حصے کو عملی شکل دے کر درحقیقت اس ڈیل کے سیاسی حصے کے تحت انجام پانے والے اقدامات پر تصدیق کی مہر لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
درحقیقت بحرین میں منعقد ہونے والی اس میٹنگ کا حقیقی میزبان منامہ نہیں بلکہ ریاض اور سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان ہے۔ اس کانفرنس کے انعقاد کیلئے منامہ کے انتخاب کی وجہ آل سعود رژیم کیلئے بحرین حکومت کی چمچہ گیری اور اس کانفرنس کے ممکنہ منفی نتائج کا خوف ہے۔ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت فلسطینیوں کو سبز باغ دکھانے میں مصروف ہے۔ امریکی حکام نے فلسطینیوں کو یہ لالچ دے رکھا ہے کہ سینچری ڈیل کے اقتصادی حصے کو عملی شکل ملنے کے نتیجے میں ان کی معیشت مضبوط ہو گی اور انہیں روزگار کے بہتر مواقع میسر آئیں گے۔ یاد رہے امریکہ اور اسرائیل نے مل کر گذشتہ اڑھائی برس سے فلسطینیوں کو شدید اقتصادی دباو کا شکار کر رکھا ہے۔ امریکہ نے نہ صرف مقبوضہ فلسطین کو ملنے والی سالانہ امداد بند کر دی ہے بلکہ اقوام متحدہ کو بھی مقبوضہ فلسطین میں بسنے والے فلسطینیوں کی مدد کرنے سے روک دیا ہے۔
مختصر یہ کہ سینچری ڈیل میں شامل اقتصادی پراجیکٹس کو متعارف کروانے کا مقصد بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں دائیں بازو کی شدت پسند یہودی تنظیموں کی جانب سے مشرق وسطی سے فلسطین نامی ملک کا نقشہ ختم کرنے پر مبنی سازش کی تکمیل کی کوشش ہے۔ یہ کام بی ٹیم کے نام سے مشہور ان چند عرب حکومتوں کے ذریعے اور انہی کے اخراجات کی مدد سے کیا جا رہا ہے جو اپنی بقا کا راز بدامنی میں تلاش کرتی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایران فوبیا مہم کا ایک اہم مقصد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اسرائیل سے قریب لانا تھا تاکہ سینچری ڈیل کے اخراجات ان کے کندھون پر ڈالے جا سکیں۔ لہذا یہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ ہی نہیں جو عرب حکمرانوں کو لوٹنے میں مصروف ہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکام بھی ان عرب حکمرانوں کی بیوقوفی سے مکمل فائدہ اٹھا کر ان کی جیب خالی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بحرین کو قربانی کا بکرا بنا رکھا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ خطے میں اپنی بدمعاشیوں کے اخراجات بھی بحرینی حکومت کی گردن پر ڈال رہے ہیں۔