مضامین

انقلاب اسلامی ایران کا آنکھوں دیکھا حال (1)

انتخاب و اختصار از: عرفان علی
 
جس پاکستانی نے ایران میں انقلاب سے پہلے اور انقلابی مراحل کے دوران کے حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس کا نام مختار مسعود ہے، جو سفارتکاری اور ادب کی دنیا کا معتبر نام تھے۔ اس چشم دید گواہ نے وہ مناظر جس کوزے میں بند کئے، اس کتا ب کا عنوان ’’لوح ایام‘‘ رکھا۔ انقلاب اسلامی ایران کی 36ویں سالگرہ ایک مناسب موقع ہے کہ انقلاب ایران کے آنکھوں دیکھے حالات سے قارئین کو آگاہ کیا جائے۔ خاص طور پر نوجوان نسل کو معلوم ہو کہ جس انقلاب کا موازنہ فرانس اور سوویت یونین کے انقلابوں سے کیا جاتا ہے اور ان سے زیادہ اچھا اور بڑا انقلاب قرار دیا گیا، اس کے اہم واقعات کیا تھے۔

لوح ایام کے 17 ابواب کو 3 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے شاہنامہ میں 8 ابواب، دوسرے حصے آمد نامہ میں 4 ابواب اور آخری حصہ منظرنامہ میں 5 ابواب شامل ہیں۔ (باب اول مارگلہ سے البرز تک) ملت ایران کی اسلامی بیداری کے بارے میں لکھا کہ: اس بیداری کے ساتھ سائرس کی جرات و حکمت کے بل پر تعمیر کی ہوئی سلطنت سے لے کر خود ساختہ پہلوی خاندان کی حکومت تک، ایران میں بادشاہت کا جو طویل تسلسل تھا وہ بالآخر ڈھائی ہزار سال کے بعد اچانک ختم ہوگیا۔ سائرس ایران کا پہلا بادشاہ تھا اور رضا شاہ آخرہ شہنشاہ۔ جس دن ایران میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا، میں اس روز وہاں موجود تھا۔ وہ دن بھی کیا دن تھے۔ یہ انہی دنوں کی داستان ہے۔‘‘

(باب دوم ایک تھا بادشاہ (5ٌ)): ’’مصری صحافی محمد حسنین ھیکل نے ایک بار بڑی پتے کی بات کہی تھی۔ اس نے کہا کہ مغرب عالمی ذرائع ابلاغ پر اتنی کامل دسترس رکھتا ہے کہ وہ جب چاہے تیسری دنیا کے کسی بھی لیڈر کو سارے جہاں میں بدنام کرنے کی مہم چلا کر پنجرہ میں بند پرندہ کی طرح بے بس کر دیتا ہے۔ اس قول کا دوسرا رخ بھی اسی قدر درست ہے: مغرب جب چاہے تیسری دنیا کے کسی بھی لیڈر کو خواہ وہ کتنا نکما ہی کیوں نہ ہو، اتنا عظیم و بے مثال اور ایسا نابغہ عصر بنا کر پیش کرسکتا ہے کہ لوگ اس بات پر فخر کرنے لگیں کہ وہ اس زمانے میں پیدا ہوئے تھے۔ مغرب کو شخصیت سازی کے علم میں بھی اتنا کمال حاصل ہے جتنا کردار کشی کے فن میں۔۔۔۔آخر کار زور قلم، بیان دعویٰ، اور بیان تائیدی کی بنا پر وہ دھاک بندھی کہ محمد رضا شاہ کو سائرس دوم، اس کی سوانح کو نیا شاہنامہ اور اس کی بے سروپا اور بے بنیاد تجاویز کو نئی دنیا کا ماسٹرپلان تسلیم کرلیا گیا۔‘‘

(باب سوم۔۔خانہ بدوش (2): ’’علامہ اقبال شروع میں ایران کے شاہ رضا خان (اول) اور مصطفٰی کمال پاشا کی فوجی صلاحیت اور انتظامی قابلیت کے بڑے معترف تھے، جب ان دونوں نے اپنی راہ گم کردی تو وہ بھی اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئے۔
نہ مصطفٰی نہ رضا شاہ میں ہے نمود اس کی
کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
’’میں نے روح شرق کو 1978ء میں تہران کی سڑکوں پر مارا مارا اور دربدر پھرتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ شروع میں اس کا حلیہ کچھ ایسا تھا، خراب و خستہ، خاموش اور بے زبان، پریشان اور کھوئی کھوئی، ہر قدم سوچ اور احتیاط کے ساتھ اٹھاتی ہوئی۔ اس کی صورت ایک مختصر سی ٹولی کی ہوتی، جو خیابان شاہ رضا کی طرف سر جھکائے جا رہی ہوتی ۔۔۔ وقت کے ساتھ اس کا حلیہ بدل گیا۔۔۔۔ ایک دن میں نے اس کاروان میں ایک ملین افراد کو شامل دیکھا۔ متحد، منظم، پرجوش اور پریقین۔ ہاتھوں میں ایک شخص کی تصویر اٹھائی ہوئی، اس کا نام لیتے اور درود پڑھتے۔ اس روز مجھے اعتبار آگیا کہ روح ایران جس دن کی تلاش میں تھی وہ اسے مل گیا ہے۔ اس بدن کا نام جمہور ہے۔ جمہور کے قائد کو یہاں امام کہتے ہیں۔‘‘

جب مختار مسعود سفارتی ذمے داریوں کی بجا آوری کے لئے ایران پہنچے تو کیا دیکھا؟ ’’ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایران کو دولت خرچ کرنے اور ضایع کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں۔ دولت کمانے کے لئے محنت نہیں کرنی پڑتی، ساری محنت دولت کے استعمال کے لئے وقف ہے۔‘‘ ’’دنیا کے ہر کونے سے ہر قسم کی چیز درآمد ہو رہی ہے۔ خواہ اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ دولت مند ضرورت کو نہیں دیکھتا۔ صرف اپنی قوت خرید کی نمائش کرتا ہے اور اسی قسم کی نمائش کا نتیجہ ہے کہ لالہ زار ایران اب گل لالہ درآمد کرتا ہے۔ گرہ دار لالہ ہالینڈ سے چلتا ہے اور ایران میں آکر کھلتا ہے۔ ایران کے قومی پھول کو لالہ نہیں ڈالر کہتے ہیں۔ ڈالر جس کی کھلے بندوں نمائش پاکستان کے زرمبادلہ کے قانون کے خلاف ہے، یہان فٹ پاتھ پر اگتا ہے۔” ’’ایران کی اس صورت حال کو دیکھ کر اس کا پورا پورا ناجائز فائدہ اٹھانے والے ترقی یافتہ ملکوں کے نمائندے بھی انگشت بہ دنداں ہیں۔ یہ ولولہ ہے یا ہنگامہ۔ حرکت ہے یا حماقت۔ ترقی ہے یا تباہی۔ جو کچھ بھی ہے اس کی رفتار بہت تیز ہے۔ میں نے گل و بلبل والے افسانوی ایران سے ڈالر اور دولت والے ایران کا سفر صرف ایک دن میں طے کرلیا۔‘‘

’’کسی نے ایران کا منہ دولت سے اتنا بھر دیا ہے کہ دم گھٹنے لگا ہے۔ تہران میں موٹروں کی کثرت سے اکثر راہ بندی ہوجاتی ہے۔ جتنی موٹریں اس شہر میں ہیں، اتنی سارے پاکستان میں نہیں۔ نئی سڑکیں بھی اس کی تعداد کے لئے ناکافی ہیں۔‘‘ ’’گھروں کے اندرونی حصہ میں اندھیرا کچھ زیادہ ہوتا ہے۔ اسے دور کرنے کے لئے بجلی کا استعمال بے دردی سے کیا جاتا ہے۔ جو اندھیرا ایک بلب کی روشنی سے دور ہوسکتا ہے، اس کی پسپائی کے لئے تین چار بلب روشن کر دیتے ہیں۔ جہاں
تین چار کی ضرورت ہو، وہاں پندرہ بیس قمقمے لگا دیتے ہیں۔ میں نے ایک گھر میں پینتالیس فانوس اور ان سے ملتی جلتی دیوار گیر روشنیاں شمار کی تھیں۔‘‘ ’’ہر گھر میں مے نوشی کے لئے بار بنی ہوئی ہے۔ صراحی اور ساغر قطار اندر قطار سجے ہوئے ہیں۔ مشروبات کی لبالب اور سربمہر بوتلوں کے ساتھ ادھ بھری اور تقریباً خالی بوتلیں بھی رکھی ہوئی ہیں۔ گھریلو مے خانے کی دیوار پر خیام کی رباعی لکھی ہوئی ہے، ان کے گھروں میں پالتو جانور بہت کم ہیں، بچے ان سے بھی کم۔ اور کتابیں نہ ہونے کے برابر۔‘‘

(باب چہارم،،، جستجو اور گفتگو) : ’’سویڈن کے سفیر نے بتایا کہ ایران کی پچھلی حکومت بجلی کی کمی کی وجہ سے ناکام ہوئی۔ ہر روز بجلی باربار بند ہوجاتی اور لوگ ایک آدھ گھنٹہ لفٹ میں پھنسے رہتے۔‘‘ ’’رمضان کا مہینہ آیا۔ دبے پاؤں اور خاموشی کے ساتھ۔ اس مہمان کی طرح جو ناوقت آمد کی وجہ سے خود اپنے آپ سے شرمندہ ہو۔ نہ دفتروں کے اوقات کار تبدیل ہوئے نہ بازاروں میں کوئی اہتمام دیکھنے میں آیا۔ نہ احترام رمضان کی سرکاری اپیل۔ نہ فضائل رمضان پر اخبار کا ضمیمہ۔ نہ دن کو ٹھیلوں پر کھجوریں بیچنے والے۔۔۔ حد تو یہ ہے کہ سحر و افطار کی خبر لانے والے سائرن نے بھی چپ سادھ لی۔ میں نے ماہ رمضان کو اتنی خاموشی سے آتے ہوئے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘ ’’خیال تھا کہ رمضان کی آمد آمد کی وجہ سے حالات سدھر جائیں گے۔ تہران میں زندگی معمول کے مطابق بسر ہوگی۔ لوگ نماز روزہ میں لگ جائیں گے۔ ۔۔۔ یہ چھوٹے چھوٹے سے جلوس جو گاہے تہران یونیورسٹی کی طرف خاموشی سے جاتے ہوئے نظر آتے ہیں، اب مہینہ بھر چھٹی منائیں گے۔ جو کچھ ہونا ہے وہ عیدالفطر کے بعد ہوگا۔ میں بھی ان لوگوں کا ہم خیال تھا اور میری رائے محض اس لئے معتبر سمجھی جاتی تھی کہ صاحب ضلع کی حیثیت سے مجھے بلوے اور غوغا کا تھوڑا بہت تجربہ تھا۔ یہ پاکستانی تجربہ ایرانی حالات کے تجزیہ کے لئے اتنا کار آمد ثابت نہ ہوا جتنا میرا خیال تھا۔ ہم سب اور ہمارے سارے اندازے غلط نکلے۔ شہنشاہ کے خلاف جو محدود اور کمزور سی تحریک چل رہی تھی، وہ ماہ رمضان میں دن بدن زور پکڑتی چلی گئی۔‘‘

’’انتظامیہ کے رویے میں سختی آگئی۔ مظاہرین کا رویہ بھی بدل گیا۔ بھاگنے کے بجائے گرفتاریاں دینے لگے۔ آنسو گیس چھوڑی گئی تو منتشر ہونے سے انکار کر دیا۔ کہنے لگے اس گیس سے ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔ ہمارے آنسوؤں کا تار ایک طویل مدت سے بندھا ہوا ہے۔ آگ لگی، سینما، بینک، ہوٹل اور دفاتر جلے۔ گولی چلی۔ لوگ بڑی تعداد میں مرنے لگے۔ زخمیوں کا تعاقب کرتے ہوئے انتظامیہ جوتوں سمیت تہران اور کرمان کی مساجد میں داخل ہوگئی۔ بے ادبی کے اس واقعہ کے بعد فوجی فل بوٹ کی دھمک صاف سنائی دینے لگی۔‘‘

(باب ہفتم،،نئے نام، پرانی تصویریں): ’’ اگست، ستمبر اکتوبر، نومبر، کل چار ماہ ہوئے۔ یہ کوئی ایسی بڑی مدت نہیں سو سوا سو دن ہی تو بنتے ہیں لیکن تبدیلی بہت بڑی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان سترہ ہفتوں میں وہ ایک دنیا جو مدت سے یہاں آباد تھی اور بڑی پائیدار لگتی تھی، ادھر سے ادھر ہوگئی ہے۔‘‘ ’’سب سے نمایاں تبدیلی خواص کے قدم اور عوام کے ہاتھ میں آئی ہے۔ وہ ڈگمگا گئے ہیں، یہ لمبے ہوگئے ہیں۔‘‘ ایک بہت بڑی تبدیلی عوام میں بھی آگئی ہے۔ شہنشاہیت کی تیز روشنی میں ان کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاگیا تھا۔ خوف کے مارے ان کی زبان بند تھی۔ اب وہ دیکھ سکتے ہیں۔۔۔کہ بادشاہت ختم ہونے والی ہے۔ اب وہ بول سکتے ہیں۔ مرگ بر شاہ کا نعرہ لگا سکتے ہیں۔‘‘ ’’اس نئے ماحول میں نئے نئے نام سننے میں آرہے ہیں۔۔ ایسے ایسے نام جنہیں چند دن پہلے زبان پر لانا جرم تھا۔

یہ نئے نام اب زبان پر آگئے ہیں۔‘‘ ’’ رضا شاہ، شاہ رضا، مادر ملکہ، اشرف پہلوی، یہ نام کتنے پرانے لگتے ہیں۔۔۔۔؛ یہ سب باسی پھولوں کے نام ہیں، جنہیں صفائی کے وقت جھاڑو پھیر کر جمع کرتے ہیں اور کوڑے کے ڈھیر پر پھینک آتے ہیں۔ نئے پھولوں کے لئے خود بخود جگہ بن گئی ہے۔ جگہ جگہ ان کا ذکر ہو رہا ہے۔ خمینی، طالقانی، مطہری، بہشتی، خامنہ ای، رفسنجانی۔ ان سب کا تعلق قم کے مدرسوں سے ہے۔ ایک نام شریعتی کا بھی ہے۔‘‘ ’’میں ان ناموں پر غور کرتا ہوں۔ ان کے علاوہ بے شمار نئے اور پرانے ناموں پر غور کرتا ہوں۔ بالآخر دو ناموں پر آکر ٹھہر جاتا ہوں۔ آج کل ایران میں سب سے پرانا اور فرسودہ نام شہنشاہ رضا شاہ کا ہے اور سب سے تازہ اور تابندہ نام آیت اللہ روح اللہ خمینی کا ہے۔‘‘
(بقیہ اگلی قسط میں)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button