Uncategorized

سنی اتحاد کونسل کا وزیراعظم کو خط، مذاکراتی پالیسی پر 20 سوالوں کے جواب مانگ لئے

شیعہ نیوز (لاہور) چیئرمین سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا نے حکومت کی طالبان سے مذاکراتی پالیسی پر اپنے خدشات اور تحفظات پر مبنی خصوصی خط وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو ارسال کیا ہے۔ خط میں صاحبزادہ حامد رضا نے وزیراعظم پاکستان سے مذاکراتی پالیسی پر 20 سوالات کے جواب مانگے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم پاکستان کے نام اپنے 20 نکاتی سوال نامہ میں ان سے پوچھا ہے کہ آئین اور ریاست کے باغی دہشت گردوں سے مذاکرات کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ کیا حکومت مذاکرات کے دوران طالبان سے پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کے قتل کا قصاص اور حساب مانگے گی؟ کیا حکومت کے لیے خطرناک قیدیوں کی رہائی، قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی، طالبان کی من پسند شریعت کے نفاذ اور آئین وقانون کو پس پشت ڈالنے جیسے طالبان کے مطالبات کو تسلیم کرنا ممکن ہے؟ کیا طالبان سے مذاکراتی عمل کے دوران کوئی ضمانت موجود ہے؟ اگر ہے تو وہ کون ہے؟ اگر طالبان کسی معاہدے کو توڑیں گے تو کیا طالبان کی نامزد کمیٹی اس کی ذمہ داری قبول کرے گی؟

خط میں پوچھا گیا ہے کہ کیا طالبان سے مذاکرات سے پہلے پچاس ہزار سے زائد شہداء کے لواحقین کو اعتماد میں لیا گیا ہے؟ کیا ریاست کے باغیوں سے مذاکرات کر کے انہیں اہمیت دینے سے مزید بغاوتوں کا دروازہ نہیں کھلے گا؟ کیا دہشت گردوں سے مذاکرات سے پچاس ہزار سے زائد شہداء کے ورثاء کے زخم تازہ نہیں کیے جا رہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کے معاملے میں دہشت گردی کا شکار ملک کے دو بڑے مکاتب فکر کو اعتماد میں نہیں لیا گیا جس سے اہلسنّت اور اہل تشیع میں ریاستی ناانصافی کا احساس خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے؟ کیا دہشت گردی کی سینکڑوں کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے والوں سے مذاکرات شریعت اور آئین کے منافی نہیں ہیں؟ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ طالبان کے چند گروپوں سے مذاکرات کامیاب بھی ہو گئے تو باقی بے شمار گروپ دہشت گردی جاری نہیں رکھیں گے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ طالبان مذاکرات کے ڈرامے کے ذریعے نئے محفوظ ٹھکانوں کی تعمیر، بارودی ذخائر کی محفوظ جگہوں پر منتقلی اور نئی صف بندی کے لیے وقت حاصل کر رہے ہیں۔ کیا فوجیوں کے گلے کاٹنے والوں سے مذاکرات کر کے پاک فوج کے جوانوں اور سپاہیوں کو بددلی کا شکار نہیں کیا جا رہا؟

وزیراعظم سے پوچھاگیا ہے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ طالبان کے امریکہ اور بھارت کے ساتھ روابط کھلی حقیقت ہیں؟ اس کے باوجود ملک کے غداروں سے مذاکرات کیوں کیے جا رہے ہیں؟ کیا یہ سچ نہیں کہ طالبان آئین کو کفریہ دستاویز، پاک فوج کو واجب القتل اور پاکستانی ریاست کے پورے انتظامی و عدالتی ڈھانچے کو غیرشرعی قرار دے چکے ہیں اس کے باوجود ایسے باغیوں سے مذاکرات کا کیا جواز ہے؟ اگر حکومت نے ہزاروں بے گناہوں کے اعلانیہ قاتلوں سے مذاکرات ہی کرنے ہیں تو دوسرے مجرموں اور قاتلوں کو جیلوں میں قید رکھنے کا کیا جوواز ہے؟ اگر دہشت گرد اسی طرح مذاکرات کے نام پر اپنے غیرآئینی و غیرشرعی مطالبات منواتے رہے تو آئین، قانون اور عدلیہ کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟ حکومت قوم کو دکھائے کہ نام نہاد مذاکراتی عمل کا ٹائم فریم کیا ہے؟ کیا مذاکرات کے نام پر دہشت گردوں کو دی جانے والی تمام رعایتوں کی تفصیلات قوم کے سامنے واضح نہیں ہونی چاہیے؟ دہشت گردوں سے مذاکرات کا دم بھرنے والے حکمران اور دوسرے راہنما اب تک شہداء کے ورثاء کی تسلی اور تشفی کے لیے ان کے پاس کیوں نہیں گئے؟ مذاکراتی عمل کے لیے صرف دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کی رائے کو ہی کیوں اہم سمجھا گیا ہے؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button