پاکستانی شیعہ خبریں
کراچی یونیورسٹی دھماکہ،جواب آں غزل
روفیسر صاحب نے اپنے کالم میں واضح کر دیا کہ اس دھماکے کے پیچھے کون سی قوتیں ملوث ہیں۔ انہوں نے دھماکے کا شکار ہونے والے مظلوم طلبہ کو تنقید کا نشانہ بناتے بناتے یہ پول کھول دیا ہے کہ مادر علمی میں نماز پڑھنے کا دکھ آپ کو اور آپ کی پشت پناہ جماعت کو ہے
کراچی سے شائع ہونے والے اخبار”امت“میں پروفیسر طارق صدیق کا کالم”کراچی یونیورسٹی بم دھماکہ“ نظر سے گزرا۔ پروفیسر صاحب نے بہترین انداز میں یونیورسٹی سے اپنی دیرینہ محبت کا ذکر کیا۔ پھر انہوں نے اپنے پرانے کلاس فیلوز کا ذکر بھی کیا اور ان کے عہدے گنوا کر اپنا قد اونچا کرنے کی کوشش کی۔ پروفیسر صاحب نے جامعہ کراچی سے اپنی محبت کو امر کرنے کے لئے اپنی بیٹی کا ذکر بھی کیا، جس کو انہوں نے صرف یونیورسٹی سے وابستگی کی خاطر وہاں داخلہ دلوایا کہ وہاں کی خبریں ملتی رہیں اور پروفیسر صاحب کی روح کو تسکین ہوتی رہے۔پروفیسر صاحب کی یونیورسٹی سے محبت کوئی نئی چیز نہیں، ہر طالب علم کو اپنی مادر علمی سے اتنا ہی لگاﺅ اور اتنی ہی محبت ہوتی ہے جتنی پروفیسر صاحب نے قلمبند کی ہے۔ مادر علمی خواہ پرائمری سکول ہو یا مڈل، ہائی سکول ہو یا کالج، مادر علمی ہی ہوتی ہے اور اس سے ہر طالب علم کو بہت زیادہ لگاﺅ ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس محبت میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ یہ محبت مادر علمی سے آپ جتنے دور ہوتے جائیں گے یہ اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔ اگر کسی یونیورسٹی یا کالج کا پڑھا طالب علم کسی اعلیٰ عہدے پر پہنچ جائے تو ترجیحاً وہ اپنی مادر علمی کے لئے بہت زیادہ کام کرتا ہے۔ اس کی ترقی کےلئے کوشاں رہتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ جو کچھ بھی وہ کر سکتا ہو، اپنی مادر علمی کی ترقی کے لئے کرے۔ یہ سب کر کے اس کو ایک روحانی سکون ملتا ہے۔ یہ سکون بس وہی محسوس کر سکتا ہے جس نے مادر علمی سے حقیقی معنوں میں محبت کی ہو۔
موجودہ طالب علم بھی مادر علمی سے اتنا ہی پیار کرتے ہیں جتنا ماضی میں یہاں پڑھنے والے کرتے ہیں۔ مادر علمی واقعی ماں کی گود کی طرح ہوتی ہے۔ موجودہ طالب علموں کو بھی اس کی حفاظت اور امن اتنا ہی عزیز ہے جتنی پروفیسر صاحب نے اپنے جذبات میں عکاسی کی ہے۔ پروفیسر صاحب کی گفتگو سے ایسا لگ رہا تھا کہ انہیں کراچی یونیورسٹی سے محبت اس لئے نہیں کہ وہ وہاں تعلیم حاصل کر چکے ہیں بلکہ ان کو یونیورسٹی سے صرف اس لئے محبت ہے کہ ان کی وہاں کافی وابستگیاں رہی ہیں۔ وہاں دوست احباب اب بھی شائد قابض ہیں، خواہ وہ طلبہ لیڈروں کے روپ میں ہوں یا”بڑوں“ کی کوششوں سے پروفیسروں کے عہدے پر آ گئے ہوں۔ بس یہ وہ وابستگیاں ہیں، جن کی بدولت پروفیسر طارق صدیق صاحب جامعہ کراچی کے گن گاتے ہیں۔
پروفیسر صاحب نے گزشتہ دنوں یونیورسٹی میں ہونے والے بم دھماکے کا ذکر کیا اور ڈھکے چھپے انداز میں اس ”جارحیت“ کو جائز قرار دیدیا کہ کچھ لوگ فرقہ واریت کے نام پر یونیورسٹی میں قابض ہونا چاہتے ہیں ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ پروفیسر صاحب نے جیلس ہوتے ہوئے اس پر بھی دکھ کا اظہار کیا کہ سپورٹس کے شعبہ میں فرقہ وارانہ تقسیم ہے، اب تعلیم کے شعبہ میں بھی یہی تقسیم لائی جا رہی ہے۔ میں اپنے واجب الاحترام پروفیسر صاحب سے یہ سوال کروں گا کہ ”حضور۔۔! کیا نماز پڑھنا فرقہ واریت ہے؟ کیا یونیورسٹی میں نماز کے لئے جگہ مانگنا فرقہ واریت ہے؟۔۔۔۔اگر یہ فرقہ واریت ہے تو یہ تو پھر پوری دنیا میں، ہر مسلمان ملک میں آپ کے بقول یہ”برائی“موجود ہے۔ اپنا حق مانگنا فرقہ واریت ہے تو آپ ہر ماہ تنخواہ کا مطالبہ نہ کیا کریں۔ آپ نے اپنی پرانی مذہبی بنیاد پر جماعتی وابستگی کے بل بوتے پر یہ تو کہہ دیا کہ یہ سب فرقہ واریت ہے، تو کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ کس مذہب، کس کتاب اور کس قانون میں لکھا ہے کہ مخالف فرقہ اگر نماز کی اجازت مانگے، تو بم دھماکہ کر کے معصوم بچوں کو حالتِ نماز میں شہید کر دو۔۔؟؟؟ آپ جس نبی ص کے پیرو ہونے کے دعویدار ہیں، انہوں نے تو مسجد نبوی میں عیسائیوں کو نماز پڑھنے کی اجازت دیدی تھی۔ آپ اتنی بڑی یونیورسٹی میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو نماز پڑھنے کے جرم میں دھماکوں سے اڑا رہے ہیں۔
پروفیسر صاحب نے اپنے کالم میں واضح کر دیا کہ اس دھماکے کے پیچھے کون سی قوتیں ملوث ہیں۔ انہوں نے دھماکے کا شکار ہونے والے مظلوم طلبہ کو تنقید کا نشانہ بناتے بناتے یہ پول کھول دیا ہے کہ مادر علمی میں نماز پڑھنے کا دکھ آپ کو اور آپ کی پشت پناہ جماعت کو ہے۔ جو تحقیقاتی ادارے اس سانحہ کی تفتیش کر رہے ہیں ان کو آپ کا خصوصی طور پر شکر گزار ہونا چاہیے کہ آپ نے بہترین انداز میں حقیقی ملزموں کی نشاندہی کر دی ہے۔ یقینا یہ آپ کی مادر علمی سے محبت کا اظہار ہے کہ آپ نے معصوم لوگوں کو بم دھماکے کا شکار کرنے والوں کو بے نقاب کیا۔