پاکستانی شیعہ خبریں
وزیرستان سے آنے والے ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق ہوگئی۔ذرائع
میڈیا رپورٹ :۔وزیرستان سے کرم آنے والے ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق ہوگئی۔ذرائع کے مطابق طالبان کمانڈر ملا عمر کرم ایجنسی کے لوئر کرم صدہ کے مقام پر ہلاک ہوگئےہیں۔ایک اعلی انٹیلجنس اہلکار نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کے شرط پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ملا عمر جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات طوری قبیلے کے مزاحمت سے اس وقت ہلاک ہوگئیے تھے، جب وہ وزیرستان سے آنے والے طالبان لشکر سمیت صدہ سے متصل طوری قبائل کے گاؤں بالش خیل پر حملے کی قیادت کررہے تھے۔ طوری قبیلے وزیرستان سے آنے والے طالبان لشکر کا بھرپور مزاحمت و دفاع کرتے ہوئے پانچ افراد کی قربانی دے کر حملہ پسپا کردیا تھا،جب کہ پسپا ہونے والے طالبان اپنے ساتھ درجنوں ہلاک ہونے والے ساتھیوں کی لاشیں بھی لے کر گئیے تھے،جس میں طالبان کے کمانڈر ملا عمر بھی شامل تھے۔انٹیلجنس اہلکار نے افغانستان میں طالبان کے ترجمان کی طرف سے تردید کے بارے میں کہا کہ طالبان کے ترجمان اگر اپنے موقف میں سچے ہیں تو وہ ملا عمر کی ویڈیو یا آڈیو کیوں شائع نہیں کرتے،دراصل ملا عمر کی ہلاکت کا اعلان کرکے طالبان اپنے ساتھیوں کا موروال کمزور نہیں کرنا چاہتے۔اس سے پہلے بھی گذشتی چار سالوں کے دوران طوری قبیلے پر کئی اہم افغان طالبان کمانڈر بشمول سیف الللہ منصور ہلاک ہوگئیے تھے ،جن کی ہلاکت کی ابتدائی دنوں میں طالبان نے تردید کی تھی لیکن بعد میں خود ہی تصدیق کر دی تھی۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کرم ایجنسی کا انتہائی اہم شہر صدہ جو طوری قبائل کی ملکیت ہے سن آسی کے عشرے سے افغانستان کے صوبہ خوست اور دارالحکومت کابل میں امریکی سی آئی اے کی طرف سے روس کے خلاف جہادیوں کے بیس کیمپ اور عبدالرسول سیاف و اسامہ بن لادان و القاعدہ کا مرکز رہا ہے۔امریکی سی آئی اے اور اس کے پارٹنرجنرل ضیا نے سن آسی کے عشرے میں جہادیوں کی مدد سے طوری قبائل پر جنگ مسلط کرکے صدہ شہر سے نسل کشی اور بچوں و خواتین کو بے دردی سے قتل کرکے باقی ماندہ طوری قبائل کو صدہ شہر سے ریاستی سرپرستی میں بے دخل کردیا،جو گذشتہ تیس سالوں سے آئی ڈی پیز کی صورت میں پاراچنار میں کسمپرسی کی حالت میں ذندگی بسر کررہے ہیں۔تاہم سوات اور فاٹا کے دیگر علاقوں کے آئی ڈی پیز کے ساتھ ہر ممکن مدد کے باوجود حکومت و دیگر تنظیموں نے صدہ سے جبری بے دخل طوری قبائل تیس سالوں سے آئی ڈی پیز کا پوچھا تک نہیں اور نہ ہی انہیں اپنے ملکیتی علاقے صدہ میں آباد کرنے کی کوشش کی گئی جو لمحئہ فکریہ ہے۔