مضامین
انتظامیہ کی جانبداری اور کالعدم تنظیم کی مزموم سرگرمیاں، دریا خان کی ملت تشیع مسائل کے بھنور میں
ذرائع کے مطابق دریا خان میں کالعدم سپاہ صحابہ کی جانب سے اکثر ریلیاں نکالی جاتی ہیں، جس کا مقصد فرقہ واریت کو ہوا کے دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا، جبکہ انتظامیہ خاموش تماشائی کا کردار احسن طریقے سے ادا کرتی ہے، گزشتہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے سعید اکبر نوانی دریا خان سے ایم پی اے منتخب ہوئے،
بعدازاں ضمنی الیکشن میں میاں شہباز شریف کا انتخاب بھی یہیں سے ہوا، جس کی وجہ سے وہ منصب وزارت اعلٰی پر فائز ہوئے، اس ضمنی انتخاب میں میاں شہباز شریف کے مدمقابل کالعدم تنظیم کے صوبائی رہنماء مولوی عبدالحمید خالد نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے، تاہم صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور کالعدم تنظیم کے مرکزی رہنماء خادم ڈھلوں کے درمیان معاہدہ طے پانے کے بعد شہباز شریف کو بلامقابلہ ایم پی اے منتخب کروایا گیا۔
صوبہ پنجاب کے ضلع بھکر کی تحصیل دریا خان کی کل آبادی لگ بھگ 70 ہزار نفوس پر مشتمل ہے، اگر اس شہر کے محل وقوع پر نظر دوڑائی جائے تو مشرق میں دیوالہ ایم ایم روڈ، مغرب میں صوبہ خیبر پختونخوا کا سرحدی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان، شمال میں پنجگرائیں کلور کوٹ جبکہ جنوب میں کوٹلہ جام بھکر واقع ہے، دریا خان سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی ایک ایک نشست ہے، جس کے مطابق قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 73 جبکہ پنجاب اسمبلی کا حلقہ پی پی 48 ہے، دریا خان میں مختلف مکاتب فکر کے پیروکار آباد ہیں، شہر کی کل آبادی میں تقریباً 18ہزار کا تعلق ملت تشیع سے ہے، دریا خان کے تشیع اپنے روزگار کے سلسلے میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے منسلک ہیں اور اپنے شہر کی ترقی میں بھی بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔
دریا خان میں تمام مسالک کے پیروکاروں کے درمیان مثالی ہم آہنگی ہے، اسی طرح اہل تشیع بھی ہر موقع پر اس شہر کے امن کو برقرار رکھنے کیلئے اپنا کردار ادا کرتے آئے ہیں، لیکن ایک کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کی جانب سے گذشتہ چند سالوں سے دریا خان کا امن تہہ و بالا کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، مقامی ذرائع کے مطابق اس کالعدم تنظیم کی طرف سے اکثر اشتعال انگیز ریلیاں نکالی جاتی ہیں، جس میں غلیظ نعرہ بازی کی جاتی ہے، اس کے علاوہ اہل تشیع پر قاتلانہ حملوں، گھروں پر فائرنگ اور ہینڈ گرنیڈ حملوں کے واقعات بھی پیش آچکے ہیں، اکثر شیعہ شہریوں کو دھمکی آمیز خطوط بھی بھیجے جاتے ہیں، ضلع بھکر کی تحصیل دریا خان میں 1991ء سے اب تک 6 شیعہ افراد کو شہید کیا جا چکا ہے، جس کے مطابق سید اعجاز حسین کو 1991ء میں، سید اعجاز علی شاہ کو 1997ء، اختر حسین شاہ 2010ء، خادم حسین، سید ضمیر الحسن شاہ کو 2011ء جبکہ سید مہدی شاہ کو 2011ء میں شہید کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق 8 اہل تشیع اسیر جیل کی سلاخوں کے پیچھے سزاء کاٹ رہے ہیں، جس کے مطابق سید منیر حسین شاہ کو انسداد دہشتگردی عدالت سرگودھا سے رانا اکرم قتل کیس میں سزائے موت سنائی جا چکی ہے، جس کیخلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی ہے، اس کے علاوہ 4 شیعہ اسیر سید نقی شاہ ولد سلیم شاہ، سید تنویر حسین شاہ ولد نذر حسین شاہ، عمران عباس گھلو ولد غلام عباس، ذیشان حیدر ولد مٹھو ایف آئی آر نمبر 127تھانہ سٹی میں نامزد ملزم ہیں، سید عمران شاہ ولد ملازم شاہ اور محمد سبطین ولد محمد رمضان لودھراں بھی قید میں ہیں، علاوہ ازیں ریاض حسین شاہ کو چند روز قبل ہی رہائی ملی ہے۔
اہل تشیع کیخلاف ہونے والی کارروائیوں میں ملوث ملزمان کی اکثریت مفرور ہے یا ضمانت پر رہا ہو چکی ہے، ان مقدمات پر نظر ڈالی جائے تو شہید ضمیرالحسن شاہ کا قتل کیس جو کہ سرگودھا کی انسداد دہشتگردی عدالت میں زیر سماعت ہے میں کامران اور عثمان نامزد ملزمان ہیں جبکہ منظور عکاشہ کی ضمانت منظور ہو چکی ہے، تھانہ صدر بھکر میں درج مقدمہ نمبر 473 کوٹلہ جام موڑ نعرہ بازی کیس میں 12 افراد نامزد ہیں، جن میں 6 افراد کی ضمانت منسوخ ہو چکی ہیں جبکہ 6 افراد مفرور ہیں اور پولیس کی گرفت میں نہیں آسکے، شہید مہدی حسن شاہ کے قتل کیس میں ڈی این اے رپورٹ نہ آنے کی وجہ سے مزید پیش رفت نہیں ہو رہی، اس اقدام کو انتظامیہ کی بے حسی کہیں یا ورثاء کی مظلومیت، اس کے علاوہ سید ریاض حسین شاہ پر ہونے والے قاتلانہ حملہ کے نتیجے میں کالعدم تنظیم کے شرپسندوں کاشف اور تنویر کھمٹیہ کو انسداد دہشتگردی عدالت سرگودھا سے 11 سال کی سزاء ہو چکی ہے، افتخار شاہ قاتلانہ حملہ کیس میں مقامی طور پر صلح کر لی گئی جبکہ متنازعہ وال چاکنگ کا ایک مقدمہ بھی زیر سماعت ہے۔
ذرائع کے مطابق دریا خان میں کالعدم سپاہ صحابہ کی جانب سے اکثر ریلیاں نکالی جاتی ہیں، جس کا مقصد فرقہ واریت کو ہوا کے دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا جبکہ انتظامیہ خاموش تماشائی کا کردار احسن طریقے سے ادا کرتی ہے، گزشتہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے سعید اکبر نوانی دریا خان سے ایم پی اے منتخب ہوئے، بعدازاں ضمنی الیکشن میں میاں شہباز شریف کا انتخاب بھی یہیں سے ہوا، جس کی وجہ سے وہ منصب وزارت اعلٰی پر فائز ہوئے، اس ضمنی انتخاب میں میاں شہباز شریف کے مدمقابل کالعدم تنظیم کے صوبائی رہنماء مولوی عبدالحمید خالد نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے، تاہم صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور کالعدم تنظیم کے مرکزی رہنماء خاد
م ڈھلوں کے درمیان معاہدہ طے پانے کے بعد شہباز شریف کو بلامقابلہ ایم پی اے منتخب کروایا گیا۔
م ڈھلوں کے درمیان معاہدہ طے پانے کے بعد شہباز شریف کو بلامقابلہ ایم پی اے منتخب کروایا گیا۔
گزشتہ 3 سال کے دوران ہمسایہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کی وجہ سے دریا خان کا امن بھی متاثر ہوا، کئی دہشتگرد ڈیرہ اسماعیل خان میں کارروائیوں کے بعد دریا خان میں روپوش ہوئے، مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیم کے مرکزی رہنمائوں کا اکثر دریا خان آنا جانا رہتا ہے، جس کی وجہ سے شہر کے حالات متاثر ہوتے ہیں، اس کے مقابلہ میں محرم الحرام کے موقع پر امن کا درس دینے والے شیعہ علماء و ذاکرین کے مختلف اضلاع میں داخلے پر فوری پابندیاں عائد کرنے میں ذرا تاخیر نہیں کی جاتی، کالعدم تنظیم کے مسلح کارکن کئی مواقع پر اپنے ساتھیوں کی گرفتاری پر تھانہ کا گھیرائو بھی کر چکے ہیں۔
ماہ ستمبر میں سید ضمیرالحسن شہید کے چہلم کے موقع پر اہل تشیع کا ایک بڑا اجتماع منعقد ہوا، جس کے بعد مختلف شیعہ افراد کے گھروں میں دھمکی آمیز خطوط آئے، جس پر انتظامیہ نے کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا، گذشتہ رمضان المبارک میں مہدی شاہ لاپتہ ہوئے، بعد ازاں 27 رمضان المبارک کو دریا خان کے نواحی علاقہ سے ان لاش برآمد ہوئی، اسی روز شہید کی نماز جنازہ کے وقت امیر معاویہ چوک پر سنوکر کلب میں فائرنگ کا ایک واقعہ پیش آیا، جس میں 5 افراد ہلاک ہو گئے، پولیس نے بغیر تفتیش و تحقیق اہل تشیع افراد کو اس کیس میں ملوث کرنے کی کوشش کی، جس کے بعد مولوی عبدالحمید خالد کی زیر قیادت کالعدم سپاہ صحابہ نے ریلی نکالی، جو پنجگرائیں سے شروع ہوئی اور دریا خان کوٹلہ جام سے ہوتی ہوئی بھکر شہر پہنچی، اس اشتعال انگیز ریلی میں علاقہ کا امن خراب کرنے کی کوشش کی گئی اور غلیظ نعرہ بازی کی گئی، فرقہ واریت کو ہوا دینے اور شہر کا امن خراب کرنے کیلئے نکالی گئی اس ریلی کیخلاف اہل تشیع نے بھرپور احتجاج کرتے ہوئے کوٹلہ جام چوک پر دھرنا دیا، جس کے نتیجے میں شرپسندوں کیخلاف ایف آئی درج کی گئی اور 5 گرفتاریاں ہوئیں