فیصل رضا عابدی کا "اعلان جنگ" اور درپردہ حقائق
پاکستان پیپلزپارٹی کے شعلہ بیاں رہنماء اور صدر مملکت جناب آصف علی زرادری کے مشیر برائے سیاسی امور فیصل رضا عابدی نے گزشتہ دنوں اپنے پارٹی عہدے یعنی پی پی کراچی کی صدارت اور صدر کے مشیر کی حیثیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ موصوف نے اپنے ان استعفوں کی وجہ ملک بھر میں اہل تشیع کے قتل عام کی کارروائیوں اور عدلیہ کی مسلسل خاموشی کو قرار دیا ہے، یہاں یہ واضح رہے کہ انہوں نے سینٹ کی رکنیت سے استعفٰی نہیں دیا، مختلف نجی ٹی وی چینلز پر اپنے استعفوں کے اعلان کے ساتھ سینیٹر فیصل رضا عابدی نے ایک اور اعلان بھی کیا اور وہ اعلان ”اعلان جنگ” کا تھا۔ جو بقول ان کے تشیع کے قتل عام کے ذمہ دار دہشتگردوں اور اعلٰی عدلیہ کے ان ججز کے خلاف ہے جو سینکڑوں قاتلوں کو رہا کرنے کے علاوہ قتل و غارت گری پر بے حسی کا مظاہرہ کرنے کے مرتکب ہوئے۔
نجی ٹی وی چینلز کے پروگرامز میں فیصل رضا اس قتل و غارت گری کا ذمہ دار دہشتگردوں اور عدلیہ کو قرار دیتے رہے، ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ این آر او کیس کے بعد سے پیپلزپارٹی اور عدلیہ کے درمیان جاری سرد و گرم جنگ سے ملک کا ایک عام شہری بھی بخوبی آگاہ ہے، اس خاموش لڑائی میں ہمیشہ دونوں جانب سے ایک دوسرے کے احترام کی باتیں کی گئیں، تاہم کبھی ایگزیکٹیو کے احکامات کو عدلیہ نے کالعدم قرار دیا تو کبھی حکومت نے عدالتی احکامات کو مذاق سمجھا، جس کا خمیازہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنی چھٹی کی صورت میں بھگت چکے ہیں، بعض حلقوں کی جانب سے حالیہ ارسلان افتخار کیس کے تانے بانے بھی چیف جسٹس کے خلاف حکومت کی انتقامی کارروائیوں سے جوڑے گئے، جس کی مثال نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے ایک ٹاک شو میں ملک ریاض کو اس وقت کے وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی کے بیٹے عبدالقادر گیلانی کی ہدایات پر مبنی ٹیلی فون کال آنا ہے۔
اگر ملک بھر میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ اور دیگر فرقہ وارانہ کارروائیوں پر نظر ڈالی جائے تو اس پر عدلیہ کی خاموشی اس مکتب فکر کے پیروکاروں کیلئے انتہائی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے، اور بارہا مطالبات اور اپیلوں کے باوجود معمولی معمولی واقعات پر سوموٹو ایکشن لینے والے قابل احترام ججز نے کوئی ایکشن نہ لیا، بلکہ کمزور پراسیکوشن کو جواز بناتے ہوئے بدنام زمانہ دہشتگرد ملک اسحاق سمیت سینکڑوں ملک و اسلام دشمن عناصر کو رہائی دی گئی، یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ اس کمزور پراسیکوشن کا فائدہ اہل تشیع اسیروں کو نہیں ملا، اس صورتحال میں سینیٹر فیصل رضا عابدی کی عدلیہ پر تنقید بالکل بجا ہوگی، تاہم دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا موصوف کا حالیہ "اعلان جنگ” مبنی برحق ہے یا کوئی سیاسی چال۔
اس صورتحال کو سمجھنے کیلئے ایک قومی روزنامہ ایکسپریس کے کراچی ایڈیشن میں 4 جولائی کے شمارے میں صفحہ آخر پر شائع اس خبر کا حوالہ دینا لازمی سمجھوں گا، جس میں قومی روزنامہ اپنے باوثوق ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کرتا ہے کہ ان استعفوں سے قبل گزشتہ چند ماہ سے فیصل رضا عابدی پارٹی میں غیر فعال ہوچکے تھے، پیپلزپارٹی کراچی کے ضلع جنوبی اور ضلع ملیر کے عہدیداروں کو بھی ان کی مرضی کے بغیر ہٹایا گیا، جس کا سبب پیپلزپارٹی کی مقامی قیادت کا اضطراب بتایا جاتا ہے، اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو فیصل رضا عابدی سے کئی شکایات تھیں، مذکورہ اخبار کی اس خبر کی حقیقت کو دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ فیصل رضا عابدی اور پارٹی قائدین کے مابین ضرور اس امر پر کوئی اختلاف ضرور تھا، اور شائد مذکورہ استعفے کا سبب بھی یہی اختلاف بنا ہو۔
پیپلزپارٹی کی ایک اہم شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گزشتہ دنوں راقم کو بتایا کہ ’’حکمران جماعت کی قیادت کو آج کل شیعہ ووٹ بنک میں کمی آنے کا خدشہ ہے‘‘۔ یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 50 فیصد سے زائد شیعہ ووٹ پیپلزپارٹی کو ملتا ہے، اس وقت ملک میں اہل تشیع کیخلاف جاری کارروائیوں، ملت کی بیداری اور شیعہ تنظیموں بالخصوص شیعہ علماء کونسل اور مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے آئندہ الیکشن میں بھرپور کردار ادا کرنے کے اعلانات نے پیپلزپارٹی کی قیادت کو یقیناً تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے، جب راقم نے پیپلزپارٹی کی اس اہم شخصیت سے یہ سوال کیا کہ شیعہ ووٹ بنک کو کہیں اور جانے سے بچانے کیلئے پی پی کیا کچھ کر رہی ہے تو موصوف نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’یقیناً کچھ تو کرنا ہوگا‘‘۔
اہل تشیع کا جتنا قتل عام فیصل رضا عابدی کی پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ہوا اور مسلسل ہو رہا ہے، شائد ہی ملکی تاریخ میں ہوا ہو، مگر نہ جانے فیصل رضا عابدی نے ایوان صدر میں رہنے کے باوجود کوئی کرداد ادا کیوں نہیں کیا، اور اگر پارٹی قیادت ان کی بات نہیں مانتی تھی تو انہوں نے اس پارٹی کو چھوڑ کیوں نہیں دیا؟ جو ان کے مکتب سے تعلق رکھنے والوں کا تحفظ نہ کرسکے، کیا یہ سمجھا جائے کہ تشیع کے تحفظ کیلئے حال ہی میں اعلان کرنے والے فیصل عابدی کو پارٹی کہیں زیادہ عزیز ہے، دنیا بھر میں تشیع کا سب سے بڑا دشمن تو امریکہ کو کہا جاتا ہے، اور یقیناً فیصل عابدی کی پارٹی وہی ہے جو امریکہ کی مرضی کیخلاف پر بھی نہیں مار سکتی، آج تک فیصل عابدی نے شیطان بزرگ کے خلاف کیوں اعلان جنگ نہیں کیا؟ کیونکہ دنیا میں دہشتگردی کا
باعث امریکہ ہی تو ہے۔
جناب فیصل رضا عابدی کا استعفوں کے بعد ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم تشیع کا قتل عام روکنے میں بے اختیار ہیں، جس ملک میں حکومت شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں بے بس ہو، وہاں عوام کس سے انصاف مانگیں گے؟ اگر 120 سے زائد قومی اسمبلی کی نشستوں اور ہر برے کام میں ساتھ کھڑے رہنے والے اتحادیوں کے باوجود بھی پی پی حکومت بے بس ہے تو کیا اقتدار سے چمٹے رہنے کا مقصد صرف قوم کا پیسہ بٹورنا ہے؟ تشیع کے قتل عام کیخلاف اعلان جنگ کرنے والے پیپلزپارٹی کے سینیٹر کے اپنے شہر کراچی میں آئے روز دیگر بے گناہ افراد کی طرح شیعہ شہری بھی دہشتگردوں کا نشانہ بن رہے ہیں اور اس صوبے میں بھی فیصل عابدی کی جماعت کی حکومت ہے، موصوف نے آج تک متعلقہ وزیراعلٰی کے سامنے احتجاج کیا نہ استفسار۔
یہ فیصل عابدی کی پارٹی کی حکومت کا دور ہی ہے جس میں فرقہ پرست تنظیمیں روز بروز منظم اور فعال ہو رہی ہیں، اگر یہ حکومت دہشتگردوں کو گرفتار کرنے اور انہیں سزائیں دلوانے میں بے اختیار تھی تو کم از کم ان فرقہ پرست تنظیموں پر پابندیاں عائد کرکے ان کے رہنمائوں کی نقل و حرکت کو تو محدود کیا جا سکتا تھا، صدر مملکت آصف علی زرداری، جن کے فیصل رضا عابدی گن گاتے نہیں تھکتے، نے دو روز قبل شہید ڈاکٹر علی رضا پیرانی کے قتل میں ملوث لشکر جھنگوی کے دو خطرناک دہشتگردوں کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد موخر کروا دیا، کیا اب عابدی صاحب کا صدر کیخلاف اعلان جنگ کرنا لازمی نہیں بنتا؟ فیصل عابدی صاحب نے کبھی اپنی ہی جماعت کے غیر سنجیدہ بلوچ وزیراعلٰی سے پوچھا کہ سانحہ مستونگ کے موقع پر آپ نے یہ کیوں کہا کہ ”ملک کی آبادی تو کروڑوں میں ہے، اگر تیس، پینتس لوگ مر بھی جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے، اور میں مقتولین کے گھر ٹیشو پیپرز کے ٹرک بھجوا دوں گا”۔
فیصل رضا عابدی کی خدمت میں عرض ہے کہ پاکستان میں ملت تشیع اب بیدار ہوچکی ہے، میڈیا پر آکر صرف جذباتی دعوے کرنے سے قوم متاثر نہیں ہوگی، اب اس قسم کے لالی پوپس دکھا کر اس کے ووٹوں کو خریدا نہیں جاسکتا، پاکستانی قوم اس فلم کا پہلا حصہ ذوالفقار مرزا کی شکل میں دیکھ چکی ہے کہ جب ایم کیو ایم کیساتھ اتحاد کے بعد پی پی کی مقبولیت گرنے لگی تو ذوالفقار مرزا کو مولا جٹ بنا کر الطاف حسین کے پیچھے لگا دیا گیا، اور مقصد پورا ہونے کے بعد بڑے بڑے دعوے کرنے والے مرزا صاحب ایسے غائب ہوئے کہ انہیں میڈیا والے بھی تلاش نہ کرسکے، اور معلوم ہوتا ہے کہ فیصل رضا عابدی کا حالیہ اعلان جنگ بھی اس فلم کا دوسرا حصہ ہے، جس میں ایک طرف تو چیف جسٹس کے خلاف کھولے گئے محاذ کو تقویت پہنچے تو دوسری جانب پیپلزپارٹی شیعہ ووٹ کی ہمدردیاں حاصل کرسکے، جو شائد اب ممکن نہ ہو۔
تحریر: عدیل عباس