مضامین

قائداعظم کا پاکستان اور فرقہ واريت

hamid meerابن سينا نے کہا تھا کہ دنيا ميں دو قسم کے لوگ ہوتے ہيں۔ ايک وہ جن کے پاس عقل ہے اور مذہب نہيں، دوسرے وہ جن کے پاس مذہب ہے مگر عقل نہيں۔ ايسا لگتا ہے کہ پاکستان ميں دوسری قسم کے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ جنرل ضياءالحق کے دور ميں مذہب کے نام پر غير عقلی فيصلے کئے گئے،پھر جنرل پرويز مشرف کا دور آيا۔ انہوں نے روشن خيال اعتدال پسندی اور لبرل ازم کے نام پر فاشسٹ پاليسی اختيار کی۔
 
انہوں نے جنوبی وزيرستان ميں فوجی آپريشن کيلئے اکثريتی فرقے کے عسکريت پسندوں کے خلاف اقليتی فرقے کے قبائلی سرداروں کی زبردستی مدد حاصل کی اور قبائلی عوام کو اندر سے تقسيم کر ڈالا اور پھر يہ فرقہ وارانہ تقسيم صرف اورکزئی ايجنسی اور کرم تک محدود نہ رہی بلکہ پشاور، لاہور اور کراچی سے ہوتی ہوئی کوئٹہ تک پہنچ گئي۔
 
2003ء ميں کوئٹہ ميں ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے اہل تشيع پر حملے شروع ہوئے، جو آج تک جاری ہيں۔ ويسے تو آج پاکستان ميں کوئی بھی محفوظ نہيں اور پچھلے دس سال کے دوران بم دھماکوں، ڈرون حملوں اور فوجی آپريشنوں کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ميں مارے جانے والے 40 ہزار سے زائد پاکستانيوں کو مختلف فرقوں ميں تقسيم نہيں کيا جا سکتا، ليکن پچھلے چار سال کے دوران کوئٹہ اور گلگت بلتستان کے علاوہ کراچی ميں اہل تشيع پر مسلسل حملے ہر محب وطن پاکستانی کے لئے باعث تشويش ہيں۔ کوئٹہ ميں صورتحال يہ ہے کہ شہر ميں صرف ہزارہ شيعہ دہشت گردی کا نشانہ نہيں بن رہے، بلکہ سني علماء کی بھی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، ليکن حکومت مکمل طور پر بےبس نظر آتی ہے۔
 
حکومت کی اتحادی جماعت ايم کيو ايم کے قائد الطاف حسين نے کوئٹہ اور کراچی ميں اہل تشيع پر حملوں کے خلاف بھرپور آواز اٹھاتے ہوئے پاکستانی قوم کو ياد دلايا ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح بھی اثناء عشری شيعہ تھے۔ الطاف حسين صاحب کی اس ياد دہانی کا مقصد يہ نظر آتا ہے کہ قائداعظم کے نام پر پاکستانی قوم کو فرقہ وارانہ تقسيم سے بچايا جا سکے۔ تاريخی لحاظ سے يہ دعویٰ درست نظر آتا ہے کہ قائداعظم اثناء عشري شيعہ تھے، ليکن يہ بھی درست ہے کہ قائداعظم کے حاميوں اور جانثاروں کی اکثريت شيعہ نہيں تھی۔
 
تحريک پاکستان کے حامی قائداعظم کو صرف ايک مسلمان سمجھتے تھے اور اسی لئے مسلمانوں کی اکثريت نے قائداعظم کی قيادت پر اتفاق کيا۔ برصغير کے مسلمانوں کی يہ خوش قسمتی تھی کہ پاکستان کا خواب ديکھنے والے شاعر علامہ محمد اقبال ايک سنی خاندان ميں پيدا ہوئے، ليکن وہ شاعر اہل سنت نہيں کہلوائے، بلکہ شاعر مشرق کہلوائے اور آج بھی ان کا فارسی کلام پاکستان سے زيادہ ايران ميں مقبول ہے۔
 
کچھ سياسی معاملات ايسے تھے، جن پر علامہ محمد اقبال اور قائداعظم کے درميان اختلاف پيدا ہوا۔ اقبال مسلمانوں کے لئے جداگانہ طرز انتخاب کے حامی تھے اور قائداعظم نے دہلی مسلم تجاويز کے ذريعہ مخلوط طرز انتخاب پر مشروط آمادگی ظاہر کی۔ سائمن کميشن اور نہرو رپورٹ پر بھی اقبال اور قائداعظم ميں سياسی اختلافات تھے، ليکن 1935ء ميں مسجد شہيد گنج لاہور کے تنازع پر مسلمانوں اور سکھوں ميں کشيدگی پيدا ہوئی تو قائداعظم کے جرأت مندانہ کردار پر علامہ محمد اقبال ان کے معترف ہوگئے۔
 
اقبال نے ايک بيان ميں قائداعظم کو بطل جليل قرار ديا۔ قائداعظم پر کچھ مولويوں نے کفر کے فتوے لگائے تو اقبال نے ان کا دفاع کيا۔ 1937ء ميں ايک ايسا واقعہ پيش آيا، جس نے قائداعظم کو مسلمانوں کے تمام فرقوں کے ايک متفقہ ليڈر کے طور پر اُبھارا۔ سنٹرل ليجسليٹو اسمبلی آف انڈيا ميں ايک سنی مسلمان رکن حافظ محمد عبداللہ نے مسلم پرسنل لاء (شريعت) بل پيش کيا، جس ميں کہا گيا تھا کہ مسلمانوں کے انتقال جائيداد کے مقدمات کا فيصلہ اسلامی قوانين کے مطابق ہونا چاہئے اور عورتوں کو بھی جائيداد ميں حصہ ملنا چاہئے۔
 
اسمبلی ميں ايک بڑے جاگيردار سر محمد يامين خان نے کہا کہ شيعہ اس شريعت بل کو نہيں مانيں گے۔ قائداعظم نے انہيں سمجھايا کہ اس قانون کے تحت مقدمات کے فيصلے مسلمان جج کريں گے اور فيصلہ درخواست دہندہ کے مسلک کے مطابق ہوگا، ليکن سر محمد يامين خان نے ميجر نواب احمد نواز خان اور کيپٹن سردار شير محمد خان کو بھی اپنے ساتھ ملا ليا۔ اس موقع پر مولانا شوکت علی، مولانا ظفر علی خان، مولوی محمد عبدالغنی، قاضی محمد احمد کاظمی اور شيخ فضل حق پراچہ سميت کئی مسلمان ارکان اسمبلی نے قائداعظم کو اس شريعت بل پر بحث کيلئے متفقہ طور پر اپنا نمائندہ مقرر کر ديا۔
 
اور آخر کار طويل بحث کے بعد سر محمد يامين خان نے بھی اس بل کی حمائت کر دی اور 16 ستمبر 1937ء کو يہ بل سنٹرل اسمبلی نے منظور کر ديا۔ بل کی منظوری اہل سنت کی نہيں، اہل اسلام کی کاميابی بنی۔ قائداعظم نے ہميشہ اپنی ذات کو شيعہ سنی اختلافات سے دور رکھا، بلکہ وہ شيعہ سنی اتحاد کی علامت تھے۔ ايک دفعہ قائداعظم سے پوچھا گيا کہ آپ شيعہ ہيں يا سنی؟ قائداعظم نے سوال پوچھنے والے سے کہا کہ يہ بتاؤ پيغمبر اسلام حضرت محمد (ص) کيا تھے؟ سوال پوچھنے والے نے کہا کہ وہ مسلمان تھے۔ جواب ميں قائداعظم نے کہا کہ ميں بھی مسلمان ہوں۔
 
قائداعظم ايسی مذہبی محفلوں ميں شرکت کرتے تھے جہاں شيعہ سنی اختلاف نظر نہيں آتا تھا۔ وہ عيد کی نماز عام مسلمانوں کے ساتھ کسی بھی مسجد ميں
ادا کر ليتے تھے۔ عيد ميلاد النبی (ص) کے جلسوں ميں بھی شرکت کرتے، ليکن کسی مخصوص فرقے کی مجلس ميں شرکت نہيں کرتے تھے۔ پشاور اور کوئٹہ ميں اہل تشيع کے علماء نے قائداعظم کو اپنی محافل ميں مدعو کيا، ليکن قائداعظم نے معذرت کر لی۔
 
قائداعظم نے اپنی زندگی ميں وصيت کر دی تھی کہ مولانا شبير احمد عثمانی ان کی نماز جنازہ پڑھائيں گے، ان کی نماز جنازہ ميں سر ظفر اللہ خان کے سوا تمام مسلمانوں نے فرقہ وارانہ تفريق سے بالاتر ہو کر شرکت کی۔ 1968ء ميں محترمہ فاطمہ جناح کی وفات کے بعد ان کی بہن شيريں بائی نے سندھ ہائيکورٹ ميں ايک درخواست دائر کی کہ فاطمہ جناح کی جائيداد کا فيصلہ شيعہ وراثتی قانون کے مطابق کيا جائے۔

20 اکتوبر 1970ء کو حسين علی گانجی والجی نے کورٹ ميں شيريں بائی کی درخواست کو چيلنج کرتے ہوئے کہا کہ فاطمہ جناح شيعہ نہيں سنی تھيں۔ درخواست گزار رشتے ميں قائداعظم کے چچا تھے لہذا ان کی درخواست پر سماعت شروع ہوگئی۔ سماعت کے دوران شريف الدين پيرزادہ نے عدالت کو بتايا کہ قائداعظم نے 1901ء ميں اسماعيلی عقيدہ چھوڑ ديا تھا، کيونکہ ان کی دو بہنوں رحمت بائی اور مريم بائی کی شادی سنی خاندانوں ميں ہوئی، تاہم قائداعظم نے خود کو کبھی شيعہ يا سنی نہيں کہا تھا۔ شيريں بائی کی شادی اسماعيلی خاندان ميں ہوئی، ليکن بعد ميں وہ بھی شيعہ ہو گئيں۔
 
عدالت ميں آئی ايچ اصفہانی نے کہا کہ وہ 1936ء ميں قائداعظم کے پرائيويٹ سيکرٹري تھے اور انہيں قائداعظم نے بتايا تھا کہ انہوں نے اسماعيلی عقيدہ چھوڑ کر شيعہ عقيدہ اختيار کيا۔ ايک اور گواہ سيد انيس الحسنين نے عدالت ميں کہا کہ انہوں نے فاطمہ جناح کی ہدايت پر قائداعظم کو شيعہ روايات کے مطابق غسل ديا، ليکن وہ يہ انکار نہ کرسکے کہ قائداعظم کی وصيت کے مطابق ان کی نماز جنازہ مولانا شبير احمد عثمانی نے پڑھائی تھی۔
 
24 فروري 1970ء کو سندھ ہائيکورٹ نے اپنے فيصلے ميں فاطمہ جناح کی جائيداد پر شيريں بائی کے حق کو قائم رکھا، ليکن اپنے فيصلے ميں يہ بھی کہا کہ قائداعظم نہ شيعہ تھے نہ سنی تھے بلکہ وہ ايک سادہ مسلمان تھے۔ سندھ ہائيکورٹ کا يہ فيصلہ قائداعظم کو اس جگہ لے آيا، جہاں قائداعظم ہميشہ خود کھڑے رہے۔ وہ خاندانی طور پر شيعہ ضرور تھے، ليکن عملی زندگی ميں خود کو صرف مسلمان کہلوانا پسند کرتے تھے۔

جو لوگ آج اہل تشيع پر کفر کے فتوے لگاتے ہيں، وہ مولانا شبير احمد عثماني کے بارے ميں کيا کہيں گے، جنہوں نے قائداعظم کی نماز جنازہ پڑھائی۔؟ حقيقت يہ ہے کہ شيعہ اور سنی ايک قرآن اور ايک نبی (ص) پر متفق ہيں۔ اسلئے انہيں علامہ اقبال اور قائداعظم کے راستے پر چلتے ہوئے شيعہ سنی اتحاد کی مثال قائم کرنی چاہئے اور اس کا بہترين راستہ يہ ہے کہ تمام اہم سياسی و دينی جماعتوں کی قيادت کوئٹہ اور کراچی ميں اکٹھے ہو کر فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ کرے۔ جس طرح اقبال اور قائداعظم ايک تھے، ہميں بھي ايک دوسرے کي مساجد اور امام بارگاہوں ميں جا کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
"روزنامہ جنگ”

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button