گلگت بلتستان میں ماتمی جلوسوں پر دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کا انکشاف
ایک اور مراسلے میں کہا ہے کہ کوئٹہ، کراچی اور گلگت بلتستان کے علاقے دہشت گردی کے نشانے پر ہیں۔ صوبائی حکومت اور انتظامیہ کو اس ضمن میں فوری طور پر حکمت عملی مرتب کرکے سیکیورٹی کے انتہائی سخت بندوبست کرنے کے احکامات بھی جاری کئے گئے ہیں۔ مراسلے کے مطابق ملک کے بیشتر حصوں میں جاری فرقہ وارنہ کشیدگی اور ناخوشگوار واقعات کا دہشت گرد فائدہ اٹھانے اور ان ناخوشگوار واقعات کو مزید بڑھا نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس تمام صورت حال سے ملک دشمن عناصر بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس کے سدباب کیلئے ہر سطح پر سخت اور مؤثر نگرانی کو یقینی بنایا جائے۔
پاکستا کا بچہ بچہ جانتا ہے اس طرح کی خبریں وزیر داخلہ جناب رحمٰن ملک صاحب کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتی ہیں۔ حالات سے نظریں چرانا اور عوام کو ذہنی طور منتشر رکھنا انکا قاعدہ کلیہ ہے۔ کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ موجودہ حکومت عوام کی جان، مال، عزت اور آبرو کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوگئی ہے بلکہ دہشت گردوں اور انتہاء پسندوں کو حکومت کی آشیرباد حاصل ہے ایسے میں متوقع حادثات کے پیش نظر رائے عامہ ہموار کرکے رکھیں تاکہ عوام کی نظروں میں بدگمان نہ ہو۔ مذکورہ خبر عوام میں خوف و ہراس پھیلانے اور اپنی نااہلیوں کو چھپانے کا بہترین طریقہ ہے۔
گلگت بلتستان کے حوالے سے رحمان ملک اس بھی قبل دو مرتبہ اس طرح کی خبریں پھیلا چکے ہیں اور گلگت بلتستان حکومت کو متوقع دہشت گردانہ واقعات سے آگاہ کر چکے ہیں اور سیکیورٹی کو یقینی بنانے کی بھی تاکید کر چکے ہیں۔ لیکن اب تک کسی دہشت گرد کو تختہ دار پہ لٹکایا نہیں گیا۔ ایسا کرنا تو کجا چار صوبوں والے ملک کے پانچویں صوبے کا وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ کی شاہی ریاست میں دہشت گردوں کی جیل منتقلی کے دوران ہوائی فائرنگ سے اسقبال ہوتی ہے اور اس کے چند ہی دنوں کے بعد جیل سے نہایت اطمینان کے ساتھ فرار ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس عجیب غریب صوبے کے وزیر اعلیٰ جس کی وفاقی اور مرکزی حکومت اس خطے کو اب بھی متنازعہ قرار دیتی ہے، ان کے نزدیک دہشت گرد شہداء کی میت پر آنسو بہانے والے، قاتلوں کے خلاف نعرہ بازی کرنے والے اور سڑکوں پہ احتجاج کرنے والے دہشت گرد شمار ہوتے ہیں۔ جبکہ سانحہ چلاس، سانحہ بابوسر اور سانحہ کوہستان کے قاتلین ان کے نزدیک ملزم ہوتے ہیں۔
سانحہ بابوسر سے پہلے بھی وفاقی وزیر داخلہ اس طرز کا ایک بیان جاری کر چکے تھے اور اس کے بعد ایک اور سانحہ بابوسر کا المناک واقعہ پیش آیا۔ لیکن تاحال دہشت گردوں کا سراغ نہیں مل سکا۔ وزیر داخلہ کی روش عجیب ہی نہیں بلکہ ان کا طرز عمل مشکوک ہے۔ انہیں سانحات سے پہلے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ کیا تیاریاں ہورہی ہیں، کون ملوث ہیں، کہاں تیاری ہورہی ہے اور کتنے افراد شامل ہے؟ لیکن ان تمام معلومات کے باوجود ان کو گرفتار نہیں کرنا اور واقعے کا انتظار کرنا چہ معنیٰ دارید۔؟