پاکستان کے اندر مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کے مراکز ہیں، مولانا شہنشاہ نقوی
مسجد باب العلم کراچی کے خطیب نے کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ وزیر داخلہ کے نام کی ایک سم اگر کراچی میں استعمال ہوتی ہے تو وہ چوبیس گھنٹے میں اس آدمی کو تلاش کر لیتے ہیں لیکن مارنے والے جب میسیج کرتے ہیں کہ ہم اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں، مختلف ادارے مختلف دہشت گرد تنظیمیں جب ذمہ داریاں قبول کرنے کا میسیج کرتی ہیں تو انہیں نہیں پکڑا جاتا، جس انداز سے پاکستان کے اندر محرم کو گزارا گیا، اس سلسلے میں سلام پیش کرتا ہوں عزاداروں، علماء اور خطباؤ ذاکرین کو کہ انہوں نے اپنے ہدف کو ذہن میں رکھا کہ ہمیں صرف عزاداری کرنی ہے اور امام حسین (ع) کی سیرت پر غور کرنا ہے۔ ان کے مصائب پر گریہ کرنا اور اپنی جو سالہا سال سے روایت چلی آرہی ہے اسے قائم رکھنا ہے۔
سید شہنشاہ حسین نقوی نے کہا کہ امسال ملک کے حفاظتی اداروں کے لئے محرم کو ایک ٹیسٹ کیس بنا دیا گیا تھا، اس سلسلے میں پولیس و رینجرز کا کردار قابل ستائش ہے، انتظامات بہت بہتر تھے، پورے شہر میں کیمرے نصب گئے۔ اور شاید حکومت تولنا اور ناپنا چاہ رہی تھی کہ ہمارے ادارے کتنے مضبوط ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اس میں یہ کامیاب رہے بہت اچھے انتظامات تھے اور بہت اچھی کوششیں تھیں۔ اگرچہ قابل افسوس واقعات رونما ہوئے راولپنڈی کا واقعہ اسی طرح گمبٹ خیرپور کے اندر افسوسناک واقعہ ہوا، شہداد ٹاؤن اور کراچی میں عباس ٹاؤن میں حادثہ ہوا۔ قصبہ کالونی سے دوبم پکڑے گئے ، روز عاشور انہوں نے بارود سے بھرا ٹرک پکڑا۔ تو یہ سب چیزیں بتاتی ہیں کہ انتظامات قابل ستائش تھے۔ حکومت نے اسے ایک چیلنج کے طور پر شمار کیا تھا جسمیں یہ کامیاب رہے۔ جہاں تک بات عزاداری کی ہے۔ اس سلسلے میں عزاداروں، ذاکرین، ماتمی دستوں اور انجمنوں کو سلام پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا۔