مضامین

پاراچنار میں امن جنگ سے زیادہ بدتر ہوتا ہے

parachinarہر وقت امن اور جنگ کی درمیانی حالت سے دوچار پاراچنار کے متعلق لوگ شاید اتنا جانتے ہیں جتنا انہیں اخبارات و جرائد میں نظر آتا ہے۔ پاراچنار کے ساتھ دلی ھمدردی رکھنے والوں کے خلوص سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ تاہم انکی حالت یہ ہے کہ جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ پاراچنار محصور ہے یا پاراچنار میں جنگ ہے تو پریشان ہو جاتے ہیں۔ جب انہیں علم ہو جاتا ہے کہ پاراچنار میں امن وامان ہے، جنگ ختم ہوگئی ہے تو انکی پریشانیاں دور ہو جاتی ہیں۔ اور شائد دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہوگا کہ بس سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔ لیکن کیا انہیں یہ معلوم ہے کہ پاراچنار میں جنگ کے دوران جو نقصان ہوتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ امن کے ایام میں خفیہ ایجنسیوں اور انتظامیہ کے ہاتھوں سے ہوتا ہے۔ یہ نقصان معاہدوں کی صورت میں، جانی نقصان کی صورت میں، مخالفین کی کمک اور مومنین کو دبانے کی صورت میں اور مختلف قسم کے دیگر طریقوں سے پیش آتا ہے۔

گزشتہ ڈیڑھ سال سے معاہدہ مری کے نام پر ایک معاہدے کے ذریعے پاراچنار میں بظاہر جنگ بندی تو ہوچکی ہے، تاہم اس دوران پاراچنار کے طوری بنگش یعنی مقامی قبائل کو ٹل پاراچنار روڈ اور دیگر مقامات، پہاڑوں وغیرہ پر درجنوں مرتبہ نشانہ بنایا جا چکا ہے اور یوں مخالفین نے پچاس سے زائد دفعہ خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا ہے، جبکہ نہایت مجبوری کی بنا پر اہلیان علاقہ نے کہیں اگر جوابی کارروائی کرنے کی معمولی سی جرات بھی کی ہے تو حکومت نے انہیں قید اور جرمانے کے ذریعے سختی سے کچل دیا ہے۔ طوریوں کو کچلنے کے اس عمل میں نہ صرف انتظامیہ اور خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں بلکہ اندر کے بعض اپنے لوگ بھی بری طرح ملوث ہیں۔

مقامی قبائل کے بچوں کے بھول چوک کو بھی حکومت نہایت سنجیدگی سے لیتی ہے۔ مثلاً مانہ ڈوپک (کڑمان) کے مقام پر پاڑہ چمکنی کی ایک گاڑی پر 8 سال کے ایک بچے نے پتھر بلکہ کنکر پھینکا تھا، جس کے نتیجے میں حکومت نے علاقہ کے لوگوں سے جیلیں بھر دیں اور ان پر لاکھوں کا جرمانہ عاید کیا، جبکہ لوئر کرم میں درجنوں مرتبہ طالبان نواز قبائل نے مسافر بردار گاڑیوں پر ریموٹ کنٹرول بم حملے، بندوقوں، تیزاب اور زھریلی گیسوں کے حملے کئے، مگر حکومت نے اس علاقے میں اپنی عدم عملداری کا بہانہ بنا کر کوئی کارروائی نہیں کی۔ یا اگر کوئی معمولی کارروائی کر بھی دی تو طالبان کے فوری ردعمل سے انہیں چھوڑ دیا گیا۔

کڑمان کے علاقہ گرام کے پہاڑوں میں اورکزئی قبیلے کے طالبان نواز افراد کی جانب سے چار پانچ دفعہ خلاف ورزی ہوئی۔ جس میں دو باپ بیٹوں کی شہادت کے علاوہ درجنوں لوگوں کو یرغمال بنانے کے واقعات شامل ہیں۔ مگر حکومت نے ابھی تک صرف طوری قبائل کو صبر کی تلقین کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا ہے، جبکہ اس سلسلے میں اپنوں کا بھی کافی حد تک تعاون حاصل ہے۔ جنہوں نے اگر ایک طرف حکومت کو چھوٹ دی ہے۔ تو دوسری جانب وہ اپنوں کو حکومت کی طرف سے ممکنہ کاروائیوں سے ڈرا دھمکا کر زمینہ فراہم کر رہے ہیں۔

مری معاہدہ میں جو شقیں ہیں، انہیں تو لاگو نہیں کیا جاتا، جبکہ جو باتیں اور شقیں موجود نہیں ہیں لیکن ان سے طالبان کو فائدہ ہے تو ضمنی طور پر معاہدے کی شکل دے کر فوری طور پر نافذ کیا جاتا ہے۔ مثلاً معاہدے کی رو سے روڈ اور پہاڑ دونوں میں ایک ساتھ امن ہوگا۔ کاٹے جانے والے پانی کی نہروں کی بحالی اور کاغذات مال کی روشنی میں بیدخل گھرانوں کی بحالی ہوگی۔ اس معاہدے میں کسی نئی سڑک کی تعمیر کا کوئی ذکر نہیں۔ جبکہ پیواڑ کے ساتھ اس سلسلے میں نہایت ظلم یہ کیا گیا کہ طالبان کے لئے ایک نئی سڑک زبردستی بنوائی گئی جس میں بعض اپنے بھی شامل حال رہے۔ اسکے علاوہ پیواڑ کے پانی اور جنگل کا مسئلہ حل نہیں کیا گیا۔ چند روز قبل پیواڑ کی ایک گاڑی کو تری منگل میں نشانہ بنایا گیا۔ جس میں دو افراد جاں بحق ہوگئے، جبکہ اگر پیواڑ والے کوئی ردعمل دکھانا چاہیں تو حکومت فوراً جوش میں آجاتی ہے۔

مقامی قبائل کو اس وقت کئی قسم کے دیگر مسائل کا بھی سامنا ہے۔ طوری قبائل جو 29 سال قبل صدہ سے مہاجر ہوچکے ہیں اور اسی طرح آڑاولی سیدانو کلی، جیلمئے، چاردیوال، اور خیواص سے بیدخل شدہ طوری بنگشوں کے لئے تو حکومت کچھ نہیں کر رہی۔ جبکہ افغانیوں، طالبان نواز منگل وغیرہ قبائل کے لئے فول پروپ انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ انہیں زبردستی بسایا جا رہا ہے اور عجیب بات یہ کہ اس سلسلے میں بعض مقامی مشران اور اہم افراد بھی شامل ہیں۔ ہمارے متاثرین کو فی گھرانہ 3 لاکھ روپے دیئے جاتے ہیں اور عجیب بات یہ کہ خیواص کے کل 140 گھرانوں میں سے صرف 23 گھرانوں، پھر بڑی کوششوں کے بعد 80 گھرانوں کو چیک دیئے گئے، جبکہ مخالفین کو فی شناختی کارڈ کے حساب سے 3، 3 لاکھ کے علاوہ بعض مخصوص گھرانوں جیسے باگزئے کے عبدالغفار اور مخی زئی کے پیر خمار کو ایک ایک کروڑ روپے دیئے گئے۔

اس وقت پاراچنار میں پی اے اور اے پی اے دونوں کا تعلق وزیرستان سے ہے، جو کہ جنگ کے دوران مقامی قبائل سے نبرد آزما تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ موجودہ اے پی اے کا ایک بھائی طالبان کے ایک دستے کی کمان کرتے ہوئے پاراچنار کے مشہور جنگی محاذ تابے مقام میں اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔ جبکہ موصوف (اے پی اے) نے کئی دفعہ اپنی اس قربانی کا ذکر کرتے ہوئے طوری قبیلے پر دباو ڈالنے کی کوشش بھی
کی ہے، یعنی وہ اس بات پر فخر کرتا ہے کہ اسکا بھائی طالبان کمانڈر تھا اور جنگ میں کام آگیا۔ یہی نہیں ایک دفعہ علیشاری قبائل کے ساتھ مباحثے میں کھلم کھلا دھمکی کی شکل میں کہا کہ سنو میرا تعلق وزیرستان سے ہے، چنانچہ حکومت کی پالیسی سمجھ میں نہیں آرہی کہ وہ ایسے افراد کو مسلط کرکے مقامی لوگوں سے کونسا انتقام لے رہی ہے۔

اس سلسلے میں پاراچنار سے دلچسپی رکھنے والی تنظیموں، اہم سیاسی لیڈروں، علماء، طلباء اور میڈیا تک رسائی حاصل کرنے والے افراد سے خصوصی گزارش ہے کہ پاکستان کو طالبان کے بڑھتے ہوئے خطرے سے بچانے والوں (اہلیان پاراچنار) پر جو بیت رہی ہے۔ اسکی خبر لیں اور انکے ساتھ اخلاقی اور سیاسی تعاؤن کریں۔ نیز انکی اس آواز کو بین الاقوامی طور پر جگہ جگہ پہنچائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button