مضامین

نابالغ بچوں کو خودکش بمبار بننے کی ترغیب

khudkash1 عسکریت پسندوں کی جانب سے اکثر نو عمر لڑکوں کو بہلا پھسلا کر انہیں خودکش بمبار بنانے کی کوششیں اب کوئی راز نہیں رہیں، مگر بیانات سے ملنے والے شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ شورش پسند، نوجوانوں کو نشہ کرانے اور رقم دینے کے ہتھکنڈے بھی استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر بلال کے واقعے کو ہی دیکھ لیں۔ تحصیل باڑہ کے علاقے قمبر خیل سے تعلق رکھنے والے اس 13 سالہ لڑکے کو 20 نومبر یعنی عاشورا سے صرف پانچ دن پہلے پشاور کے نزدیک گرفتار کیا گیا تھا اور اس سے قبل بم ڈسپوزل اسکواڈ کے اہلکاروں نے اس کے جسم پر بندھی ہوئی دھماکہ خیز مواد کی جیکٹ اتار لی تھی۔ اسے مبینہ طور پر استعمال کرنے والے مومن ٹاؤن کے اسکول استاد جہانگیر کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں افراد ایک دہشت گردانہ حملہ کرنے کی غرض سے موٹر سائیکل پر اکٹھے جا رہے تھے۔ بلال نے 21 نومبر کو عدالت کو بتایا کہ جہانگیر نے اسے حملہ کرنے کے عوض 15 ہزار روپے یعنی صرف 1 سو 56 ڈالر دینے کی پیشکش کی تھی۔

اسی طرح لکی مروت میں اُن تین لڑکوں کے معاملے کو دیکھ لیں، جنہیں دہشت گردی کی تربیت دینے کے لیے وزیرستان لے جایا جا رہا تھا۔ انہیں مبینہ طور پر استعمال کرنے والے شخص کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ وزیر اطلاعات خیبر پختونخوا میاں افتخار حسین کے مطابق تینوں کم عمر لڑکوں کو نشہ کرایا گیا تھا جس کی تصدیق طبی معائنوں سے بھی ہوئی ہے۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل آف پولیس شفقت ملک نے کہا کہ حکام نے ان لڑکوں کا منشیات کے سلسلے میں معائنہ کرانے کا فیصلہ اس وجہ سے کیا کہ خودکش جیکٹ اتارنے کے بعد جب حکام نے بلال کا معائنہ کیا تھا تو وہ نیم بے ہوشی کے عالم میں تھا۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں خودکش بمباروں کو ٹیکے لگانا یا منشیات کا استعمال کرانا معمول کا حصہ ہے، تاکہ وہ آخری لمحات میں اپنا ارادہ نہ بدل لیں۔ ان واقعات میں خودکش بمباروں کو استعمال کرنے والے افراد کی گرفتاریوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکام اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے زیادہ سرگرمی سے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔

عسکریت پسندوں کی حکمت عملی کی مذمت
تحریک طالبان پاکستان کے ایک ترجمان مکرم خراسانی نے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا ہے کہ عام طور پر کسی خودکش بم حملے کے مشن کے تین اہم کردار ہوتے ہیں، نمبر ایک امیر، نمبر دو رہبر (خودکش بمباروں کو استعمال کرنے والا) نمبر تین فدائی (خودکش بمبار)۔ خراسانی نے کہا کہ رہبر کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ اسے ہدف کی نشاندہی کرنے، ضروری ساز و سامان فراہم کرنے اور فدائی کو ہدف تک پہنچانے کا کام تفویض کیا جاتا ہے۔ طالبان اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مختلف قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ جیسے کسی غیر متعلقہ ظلم یا کسی اور اشتعال انگیز واقعے کی سی ڈی یا لٹریچر کو اپنی پسند سے ترتیب دیکر پیش کرنا وغیرہ، جس کی ذریعے بمباروں کے ذہننوں کو غلیظ کرکے باغی بنایا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ منشیات سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے کہ کہیں بمبار آخری مراحل میں اپنے مشن سے پھر نہ جائے، جبکہ انکا یہ رجحان عسکریت پسندوں اور حملوں کے لیے ان کے استعمال کردہ ہتھکنڈوں کی جانب عوام کی نفرت بڑھانے کے لحاظ سے جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔

اس سلسلے میں گورنر خیبر پختونخوا مسعود کوثر نے کہا کہ بھرتی کرنے والے اور بچوں کو خودکش حملوں کی ترغیب دینے والے افراد غالباً سب سے زیادہ قابل نفرت اور قابل مذمت ہیں۔ ہمارے دین اور سماجی ماحول میں انہیں انسان کہنے کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا۔ وہ کسی رحم کے مستحق نہیں مگر ہم ان کی طرح وحشی نہیں بن سکتے۔ انہوں نے 13 سالہ بچوں کو خودکش بمبار بنانے والوں کے بارے میں کہا کہ وہ کس قسم کے لوگ ہیں۔ وہ اسلام کے تصور کو بدنام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ اسلام کو ایک وحشی مذھب کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس بہت سے مشتبہ رہبروں اور بھرتی کرنے والوں سے تفتیش کر رہی ہے، تاکہ اس نیٹ ورک کو توڑا جا سکے، جو بچوں کو اس طرح کے غیر انسانی حملے کرنے کے لیے بھرتی کر رہا ہے۔ گورنر مسعود کوثر نے مزید کہا کہ یہ بچے معصوم ہیں اور حکومت نوجوانوں کو بہتر تعلیم اور تکنیکی صلاحیتوں کی فراہمی کے لیے کوششیں کر رہی ہے، تاکہ وہ اس طرح کے افراد کے ہتھے نہ چڑھ سکیں۔

سینئیر وزیر خیبر پختونخوا بشیر بلور نے بچوں کو خودکش دھماکوں کے لیے استعمال کرنے والے افراد کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ لوگ کوئی اجنبی نہیں ہیں، اپنے ہی لوگ ہیں مگر وہ وحشی ہیں۔ وہ نہ صرف اسلام بلکہ پاکستانی نسل کے مستقبل کو بھی سخت نقصان پہنچا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم کسی بھی ایسے شخص کے ساتھ نرمی نہیں برت سکتے، جو اس آگ کے لیے ہمارے بچوں کو بطور ایندھن استعمال کر رہا ہو، انہیں قرار واقعی سزا دی جائے گی، کیونکہ وہ ہماری آئندہ نسل کو بہلا پھسلا کر لاعلمی میں موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے پاس تربیت یافتہ رہبر ختم ہوتے جا رہے ہیں اور وہ سلامتی کے اضافی اقدامات کے سامنے ناکام ہو رہے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ان اقدامات کی وجہ سے ہی سکیورٹی کے ادارے بیشتر خودکش مشنوں کو پہلے ہی ناکام بنا دیتے ہیں۔

وجوہات اور اس راستے کی طرف رغبت:بیشتر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گمراہ مذہبی جنونیت، بڑوں کا جبر، خاندانی و سماجی دباؤ، غربت و کم تعلیم وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے دہشت گردوں کو خودکش حملوں کے لیے نوجوان بھرتی کرنے میں مدد ملتی ہے۔ لکی مروت میں پیش آنے والے واقعے میں لڑکوں نے مجسٹریٹ کو بتایا کہ ان کا مبینہ رہبر کراچی کے ایک مدرسے کا طالب علم نیاز نامی شخص تھا، جس نے کہا تھا کہ جنت میں بہت سے تحائف ان کے منتظر ہیں۔ اس چیز نے انہیں کراچی سے سفر کرنے کی ترغیب دی۔ عدالت نے یکم دسمبر کو لڑکوں کو رہا کر دیا، جبکہ نیاز کی تلاش جاری ہے۔ اس معاملے میں یحیٰی نامی ایک مبینہ رہبر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مقامی پولیس افسر امیر محمد نے اپنی گفتگو میں کہا کہ یحیٰی نے پولیس کو بتایا کہ کراچی میں نولی نامی ایک شخص نے اسے 5 ہزار روپے دیے تھے، تاکہ وہ لڑکوں کو گاڑی میں سوار کرکے بنوں لے جائے، جہاں سے انہیں شمالی وزیرستان ایجنسی کے صدر مقام میران شاہ تک مزید سفر کرنا تھا۔

کارروائی کا مطالبہ:
بہت سے والدین، انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں اور قانون سازوں کا کہنا ہے کہ بھرتی کرنے والوں اور رہبروں کو سخت سزا دینے کی ضرورت ہے۔ لاہور کے رہائشی حافظ سید رضا علی کا نو عمر بھائی گزشتہ کئی ماہ سے لاپتہ ہے اور غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق اسے غالباً وزیرستان لے جایا گیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ہم اسے تلاش کر رہے ہیں اور تھانے میں بھی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی تھی مگر ابھی تک اس کا کچھ پتہ نہیں۔ خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ہدایت اللہ نے کہا کہ بچوں کو جنگ کی بھٹی میں جھونکنا غیر انسانی اور ظالمانہ فعل ہے۔ اگر یہ بالغ افراد اتنے بہادر ہیں اور شہادت کی آرزو رکھتے ہیں تو پھر وہ خود آگے جا کر کیوں نہیں لڑتے؟ یا خود اپنے جگر گوشوں کو جنت کیوں نہیں بھیجتے، یہ ظالم کسی غریب اجنبی کے بچے کو استعمال کرکے اجنبیوں کو مار رہے ہیں، خود اپنے خانوادے سمیت آرام سے بیٹھے ہیں۔
 
ہدایت اللہ کا بھائی مارچ 2009ء میں جمرود کی ایک مسجد میں ہونے والے خودکش حملے میں جاں بحق ہوگیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان کا ہر طرح سے مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ افراد جو بچوں کو اس طرح کی پرتشدد کارروائیوں کی تربیت اور ترغیب دے رہے ہیں وہ انسانیت کے خلاف بدترین جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ہمارے پیارے تو جا چکے ہیں مگر ہماری دعا ہے کہ دوسرے لوگ نہ مریں۔ دوسروں کے سہاگ نہ اجھڑیں۔ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کی تنظیم کی رابطہ کار قمر نسیم نے کہا کہ کم تعلیم و تجربے کی وجہ سے خواتین اور بچوں کو دہشت گردی کی ترغیب دینا آسان ہے۔ عسکریت پسند انہیں آسانی سے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو خودکش بم حملوں میں بچوں کو استعمال کرنے والے قابل مذمت افراد کو سزا دینے کے لیے سخت قوانین منظور اور نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔

جیل سے ایک قیدی نے اپنے ایک رشتہ دار کے توسط سے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں حکومت ہی سب سے بڑی مجرم ہے، کیونکہ ایسے گھناونے جرائم کے مرتکبین کے ساتھ جیل کے اندر وی آئی پی افراد کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔ انکا کہنا تھا ایسے افراد کو جیل میں لوگ ملنے آتے ہیں۔ انکا کمرہ بھی ایک اعلٰی حجرے کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ جیل کے دیگر قیدی بھی انہیں احترام کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایسے افراد جیل میں بھی ایک خاص جماعت کے لیڈر بن کر جیل کے اندر نفرت پھیلانے اور انہیں ایک خاص مشن کے لئے تیار کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ انکی تجویز تھی کہ ایسے افراد کو باقی قیدیوں سے الگ رکھا جائے اور انہیں خاندان کے افراد کی ملاقات سے بھی محروم رکھا جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button