ہم اہل قفس تنہا بھی نہیں
بحث زوروں پر تھی۔ نوجوان دوستوں کا یہ گروپ پکنک منانے آبادی سے دور پہاڑ کے دامن میں آیا ہوا تھا۔
چائے کا دور چل رہا تھا اور زمین پر بچھی دریوں پر بیٹھے یہ نوجوان تاش، لوڈو یا موسیقی سے دل بہلانے کے بجائے ایک نہ ختم ہونے والی بحث میں اُلجھے ہوئے تھے۔
کبھی ان کی آوازیں زیادہ اونچی ہوجاتیں تو کبھی مدہم کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بہ یک وقت کئی صدائیں بلند ہوتیں۔ شاید ہر ایک کی یہی خواہش تھی کہ پہلے اس کی بات سنی جائے۔
”دیکھئے میں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ ہمارا قصور صرف یہی ہے کہ ہم شیعہ ہیں“
ایک ہلکی داڑھی والا نوجوان بولا۔ ”کیا وہ ہر قتل کے بعد اسی بات کو دلیل بنا کر دھڑلے سے ان واقعات کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے؟
اور کیا ہم سب یہ بات نہیں جانتے کہ یہ دراصل کون لوگ ہیں؟ یہ وہی ہیں جو پاکستان بلکہ پورے خطے میں اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں اور اس کام میں یہ اکیلے نہیں بلکہ کچھ بیرونی اور کچھ اندرونی قوتیں ان کی مدد کررہی ہیں۔ اسی لئے تو ان پر قابو پانے کی سنجیدہ کوششیں ہی نہیں ہوتیں لیکن ایک بات جو میرے لئے بھی تعجب کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ کیاپورے پاکستان میں صرف ہم ہی ان کے راستے کی رکاوٹ ہیں“؟
”میں آپکی بات سے اتفاق نہیں کرتا“ پاس بیٹھا دوسرا نوجوان بول پڑا۔ ”یہ بات اتنی سادہ نہیں جتنی آپ سمجھ رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس فرقہ واریت کے پیچھے اصل مقاصد کچھ اور ہی ہیں۔ پندرہ سال پہلے تک کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان میں کسی قسم کا مذہبی یا فرقہ وارانہ مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن آج یہ عالم ہے کہ پورا شہر مٹھی بھر دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے جبکہ پنجاب میں کئی سالوں سے فرقہ وارانہ تشدد کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا حالانکہ فرقہ وارانہ قتل و غارت کا آغاز نوّے کی دہائی میں پنجاب ہی سے ہوا تھا۔
خیبر پختونخوا، سندھ اور کشمیر میں بھی صورت حال ایسی نہیں جیسا کہ بلوچستان بالخصوص کوئٹہ میں ہے حالانکہ وہاں شیعوں کی تعداد کوئٹہ کی نسبت زیادہ ہے۔ دراصل بلوچستان کے محلِ وقوع اور اس کے بے پناہ معدنی وسائل کی اہمیت کے پیش نظر دنیا کے مختلف ممالک نے اس پر اپنی نظریں گاڑ رکھی ہیں۔ یہ ممالک مستقبل میں اپنے اقتصادی مفادات بلوچستان سے وابستہ سمجھتے ہیں اس لئے ان کی خواہش ہے کہ صوبے میں امن و امان کی صورت حال ہمیشہ اتنی خراب رہے کہ کوئی حریف ملک یہاں کسی قسم کی سرمایہ کاری کا سوچ بھی نہ سکے لیکن یہاں بھی وہی سوال اُٹھتا ہے کہ ان مقاصد کی تکمیل کے لئے ہزارہ قوم کی ہی قربانی کیوں“؟
”آپ لوگ کچھ بھی کہیں میں تو اس بات پہ یقین رکھتا ہوں کہ ہمارے قتلِ عام کے پیچھے وہ لوگ ہیں جو ہمارے کاروبار اور جائیدادوں پرنظریں جمائے بیٹھے ہیں“، نوجوان تاجرموقع پاکے گویا ہوا۔
”آپ تو ہر بات میں سیاست کو گھسیٹ لیتے ہیں جبکہ یہ خالصتاََ معاشی مفادات کا جھگڑا ہے۔ کوئٹہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا دارالخلافہ ہے اور یہاں کا سب سے بڑا تجارتی مرکز بھی۔ بلوچستان کے ساتھ دو ملکوں کی سرحدیں ملتی ہیں جن کے ساتھ کوئٹہ ہی کے راستے تجارت ہوتی ہے۔
آس پاس کے شہروں کے علاوہ پاکستان بھر کے لوگ تجارت اور خریداری کی نیت سے کوئٹہ آتے ہیں۔ ہزارہ کوئٹہ کی تجارتی اور کاروباری زندگی کا اہم جزو ہیں اسی لئے بعض لوگوں کی خواہش ہے کہ دہشتگردی کی آڑ میں ڈرا کر ہمیں ہماری جائیداد اور کاروبار سے بے دخل کرکے ان پر قبضہ کیا جائے“۔
”میں تمھاری ان باتوں سے ہرگز اتفاق نہیں کرتا“کافی دیر سے خاموش بیٹھا ایک نوجوان بحث میں کود پڑا۔ ”بدامنی، ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کی وجہ سے کوئٹہ کا ہر طبقہ متاثر ہوا ہے اور ہرقسم کا کاروبار ٹھپ ہو کے رہ گیا ہے۔ باہر کے لوگوں نے تجارت اور خریداری کی غرض سے یہاں کا رخ کرنا ہی چھوڑ دیا ہے جس سے ہر کوئی پریشان ہے۔ میرا تو خیال ہے کہ ہم درحقیقت سعودی عرب اور ایران کی پراکسی جنگ کا شکار ہیں۔ دراصل دونوں ہی ممالک اس زعم میں مبتلا ہیں کہ عالمِ اسلام کی رہنمائی کا حق اُنہیں ہی حاصل ہے لہٰذا ان کے درمیان ہر معاملے میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی ایک دوڈ سی لگی ہے”۔
تیل سے مالامال یہ ممالک نہ صرف بے تحاشا دولت لٹا کے اپنے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے میں جُتے ہوئے ہیں بلکہ مخالفین کو بھی بزورِ بازو زیر کرنے میں مصروف ہیں۔
کافر ملکوں سے مقابلہ تو ان کے بس کی بات ہی نہیں اس لئے ایک دوسرے کو ہی آنکھیں دکھاتے رہتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اس پراکسی جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں۔ شاید شکار کرنے والوں کے لئے ہم اس لئے بھی زیادہ آسان شکار ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ وہ اپنا مقصد بھی حاصل کریں گے اور ہماری کمزور چیخیں بھی کسی کو سنائی نہیں دیں گی“
”ہم ایک بات بھول رہے ہیں“، دانشور نظر آنے والا نوجوان بول پڑا؛ ”آج پاکستان کا کوئی کونہ ایسا نہیں جہاں امن و امان کی صورتِ حال تسلی بخش ہو۔ کراچی میں آئے دن درجنوں لاشیں گرائی جاتی ہیں۔ کوئی فرقہ وارانہ جنوں کا شکار ہوتا ہے تو کو
ئی لسّانی منافرت کا۔
خیبر پختونخواہ میں بھی امن و امان کا یہی حال ہے۔ آئے دن بم دھماکے، سرکاری عمارتوں پہ حملے اور عبادت گاہوں میں خون ریزی معمول کی بات ہے، پنجاب میں اگر فرقہ واریت نہیں تو اہم تنصیبات،پولیس اور ریگر سرکاری ادارے آئے دن دہشت گردوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔
گلگت، پارہ چنار اور قبائلی علاقے بھی تو بد امنی کی آگ میں جل رہے ہیں۔ جہاں تک بلوچستان کی بات ہے تو مجھے بتائیں کہ یہاں کون ہے جو اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہو؟ اگر ایک طرف علیحدگی پسند اپنے مخالفین کے نام پہ بعض لوگوں کا خون کر رہے ہیں تو دوسری طرف آئے دن ویرانوں سے بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں، بے گناہ پشتونوں اور سیٹلرز کا بھی قتل کیا جارہا ہے جبکہ علماء بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں۔
ہمارا تو جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ مجھے تو اس بات کا سو فیصد یقین ہے کہ یہ ان قوتوں کی کارستانی ہے جو پاکستان کو کمزور کرنے کے درپے ہیں تاکہ اسے صفحہء ہستی سے ہی مٹایا جاسکے“۔
”لیکن کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ جو لوگ ہمارا قتلِ عام کررہے ہیں وہ بھی دراصل یہی چاہتے ہیں کہ بلوچستان پہ مرکز ی حکومت کی گرفت کمزور ہو تاکہ اسے پاکستان سے علیحدہ کیا جاسکے“، ایک اور نوجوان نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔
”یا پھر ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ ”محب وطن قوتیں“ فرقے کے نام پر ہمارا قتل کررہی ہوں تاکہ دنیا پر ثابت کیا جاسکے کہ بلوچستان کا مسئلہ محرومیت یا علیحدگی پسندی نہیں بلکہ فرقہ واریت ہے اور اس طرح صوبے کے اصل مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہو رہی ہو؟
ویسے بھی کچھ عرصے سے بلوچستان میں ہزارہ قوم کی نسل کشی ہی دنیا بھر میں پاکستان کے حوالے سے سب سے بڑا موضوع ہے لیکن گھوم پھر کے بات پھر وہی آجاتی ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لئے ہمارا ہی انتخاب کیوں“؟
بحث میں کچھ لمحوں کے لئے وقفہ آیا تو ان کا وہ دوست بھی محفل میں آ بیٹھا جو ان کے لئے کھانا بنانے پر مامور تھا۔ وہ ایک لا اُبالی سا نوجوان تھا اور کسی سنجیدہ بحث میں کم ہی پڑتا تھا لیکن آج شاید وہ بھی کچھ کہنے کے موڑ میں تھا۔
”کھانا تیار ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی ہے“، اس نے اتنا کہا تو سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔
سب کو اپنی طرف متوجہ پاکر اس نے کہنا شروع کیا۔ ”میں کافی دیر سے آپ لوگوں کی باتیں سن رہا ہوں۔ میں آپ لوگوں کی طرح زیادہ پڑھا لکھا نہیں۔ میں کتابیں بھی نہیں پڑھتا اور نہ ہی انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کے بارے میں زیادہ جانتا ہوں بس کبھی ٹی وی دیکھ لیتا ہوں یا کبھی کبھار اخبار پڑھ لیتا ہوں۔
میں آپ لوگوں کی طرح گہری باتیں تو نہیں کرسکتا لیکن محسوس تو کر سکتا ہوں۔ مجھے اس بات کا بالکل اندازہ نہیں کہ ہمیں کون اور کیوں مار رہا ہے اور ہم لڑیں بھی تو کس سے؟
میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ گزشتہ تیرہ سالوں میں ہمارے سینکڑوں جوان، بوڑھوں، بچّوں اور عورتوں کو قتل کیا جا چکا ہے، ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ہیں، سینکڑوں زندگی بھر کے لئے اپاہج بن گئے ہیں۔ سینکڑوں گھروں کے کفیل مارے جا چکے ہیں، لاتعداد بچے یتیم اور بے شمار عورتیں بیوہ ہو چکی ہیں۔ ہمیں مساجد اور امام بارگاہوں میں بھی مارا جارہا ہے اور سڑکوں پر بھی، ہمارے مزدور بھی قتل ہو رہے ہیں اور طالبِ علم بھی، ہمارے سرکاری ملازمین کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے اور تاجروں کو بھی۔کوئی بھی محفوظ نہیں۔
میرے لئے اس سوال کی اتنی اہمیت نہیں کہ ہمیں شیعہ ہونے کے جرم میں مارا جارہا ہے یا ہزارہ ہونے کی پاداش میں۔ میرے لئے تو یہ حقیقت زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ ہمیں مسلسل قتل کیا جارہا ہے۔ ہمیں تاک تاک کر مارا جارہا ہے۔
آج کوئٹہ میں کوئی ایسا ہزارہ نہیں جس نے دہشت گردی کا شکار اپنے کسی دوست عزیز یا رشتہ دار کی میت کو کاندھا نہ دیا ہو۔ کیا بلوچستان میں صرف ہم ہی شیعہ ہیں؟ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بھی صرف ہزارہ شیعہ ہی کیوں مارے جارہے ہیں؟ حالانکہ وہ کئی نسلوں سے اُن علاقوں میں آباد ہیں۔ ان کے بچّے وہاں کی بولی ایسے ہی بولتے ہیں جیسے ان کی اپنی مادری زبان ہو۔
مجھے اس بات پر بھی تعجب ہوتا ہے کہ آج تک کوئی قاتل یا دہشت گرد گرفتار کیوں نہیں ہوا؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ قاتل بے رحمی سے قتل کرکے قانون نافذ کرنے والوں کی آنکھوں کے سامنے آرام سے نکل جاتے ہیں اور کوئی ان کا تعاقب کرنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتا؟
ہماری حکومت بھی ان کا سراغ لگانے سے قاصر ہے جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے جیسے یہ دہشت گرد آسمان سے اُترتے ہیں اور قتل کرکے زمین میں غائب ہو جاتے ہیں یا پھر وہ اتنے طاقتور ہیں کہ کوئی ان پہ ہاتھ ڈالنے کی جرات ہی نہیں کرسکتا۔
شہر میں بسنے والے ہمارے ہمسایوں نے بھی اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ وہ اپنے سامنے ہمیں قتل ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں لیکن ان کی زبان پہ تالے پڑے ہوئے ہیں۔ لیکن کیا زبردستی کسی کو عقیدہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے یا بزورِ طاقت کسی سے اسکی شناخت چھینی جا سکتی ہے؟
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کوئٹہ کو ہمارے لئے ایک قید خانہ بنایا جائے گا جہاں ہم قتل ہوتے رہیں گے اور ہماری چیخ و پکار سننے والابھی کوئی نہیں ہوگا تو یہ ان کی بھول ہے۔ ہماری نسل کشی کے خلاف ہر عقیدے اور مکتبہ فکر کے
لوگوں نے پاکستان بلکہ دنیا بھر میں احتجاج کرکے اور ہماری آواز میں اپنی آواز ملا کے یہ ثابت کردیا ہےکہ ہم اکیلے نہیں۔ ہم کمزور بھی نہیں۔ ابھی انسانیت زندہ ہے اورجب تک انسانیت زندہ ہے ہمیں بھی کوئی ختم نہیں کرسکتا“