نواز شریف کا دورہ کوئٹہ اور امن وامان کی مخدوش صورتحال!!!
حالیہ سانحہ ہزارہ ٹاؤن کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے کوئٹہ کا پہلا دورہ کرکے قوم کو پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ امن و امان کے قیام میں سنجیدہ ہیں، انہوں نے ایم ڈبلیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی آغا محمد رضا رضوی کی قیادت میں ہزارہ شیعہ برادری کے وفد سے ملاقات کی اور انہیں امن وامان کے قیام کیلئے حکومتی کاوشوں سے آگاہ کیا۔ لیکن سوال وہی ہے کہ ان کی حکومت کے پاس وہ کیا جادو کی چھڑی ہے جس سے وہ کوئٹہ میں امن کی فاختہ اڑا پائیں گے۔ کیونکہ جناب تو ہزاروں معصوم انسانوں کے قاتلوں سے مذاکرات کے حامی ہیں تو پھر یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ ملک میں امن قائم کر پائیں گے۔ دوسرا یہ کہ جن لوگوں سے مذاکرات کی بات کی جا رہی ہے ان کی شرائط پر عمل درآمد کون کریگا کیونکہ یہ گمراہ لوگ نہ تو آئین پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کی عدلیہ اور جھنڈے کو مانتے ہیں، ایسے میں مذاکرات کو کیسے کامیاب بنایا جاسکتا ہے، شائد اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مذاکرات تو طالبان سے کئے جائیں گے لیکن لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ سے کیسے نمٹا جائیگا، اس حوالے سے نواز حکومت نے کوئی حکمت عملی تاحال بیان نہیں کی۔ ان کا کہنا ہے کہ فرقہ پرست عناصر سے سوائے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو کوئٹہ سمیت ملک بھر میں ملت تشیع کا قتل عام جاری رہے گا اور قوی امکان ہے کہ اب کی بار صبر کے پیمانے لبریز ہو جائیں اور ملک میں بڑی سطح پر ان واقعات کا ردعمل بھی سامنے آنا شروع ہوجائے۔ لٰہذا حکومت وقت کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے اور ان فرقہ پرستوں کے خلاف بے رحمانہ آپریشن کرنا ہوگا۔ تجزیہ کاروں کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ ریاست کو واضح کرنا ہوگا کہ اس کی صبر کی حد کیا ہے؟، کون کس حد تک جائیگا تو ریاست اسے باغی اور ریاست مخالف قرار دیکر آپریشن کریگی۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملک میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکے گا۔