مضامین

نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک کاشغر شیعہ نسل کشی

shiite muslimsقاہرہ سے پشاور تک شیعہ مسلمان تکفیری دیوبندی اور سلفی دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں – ان تکفیری دہشت گردوں نے بلا مبالغہ ہزاروں شیعہ شہید کر دیے ہیں جب کہ باقی لوگ خاموش تماشائی بنے ابھی یہ سب دیکھ رہے ہیں – چند روز قبل مصر میں ایک مشتعل ہجوم نے شیعہ آبادی پر حملہ کیا اور ایک گھر میں پناہ لئے ہوے چار شیعہ افراد کو شدید تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر ڈالا – ہجوم نے مقتول شعیوں کی لاشوں کو گلیوں میں وحشیانہ طور پر گھسیٹا اور اور لاشوں کی بے حرمتی کی – عراق میں نہ ختم ہونے والے بم دھماکوں کا نشانہ شیعہ آبادی اور شیعہ علاقے بنتے ہیں – ہر روز کیی کیی دھماکوں میں شیعہ آبادی اور شیعہ افراد ، شیعہ مساجد اور امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے – حال ہی میں ہونے والے ایک دھماکے میں پندرہ شیعہ شہید ہوے اسی طرح بحرین میں سعودی ایما پر بحرینی اور سعودی افواج بحرین کی اکثریتی شیعہ آبادی کے حقوق غصب کیے ہوے اور ان کو طرح طرح کے مظالم کا نشانہ بنانے میں مصروف ہیں
پوری دنیا میں شیعہ سنی تعلقات کا کشیدگی کا شکار ہیں – خاص طور پر شام میں اس حوالے سے یہ تفریق صاف دیکھی جا سکتی ہے . ایران کی حکومت کی شام کی حکومت کی حمایت اور شام کی حکومت کے سلفی باغیوں سے جنگ جس میں سلفی باغیوں کو سعودی عرب ، قطر سمیت اور سلفی ریاستوں کی حمایت حاصل ہے – سلفی مفتی اپنے فتووں سے یہ بات سنی عوام کے ذہنوں میں باور کرنے میں کامیاب ہو گیے ہیں جس میں وہ اس قضیے کو شیعہ سنی جنگ کا نام دے سکیں – شام کے اندرونی طور پر شروع ہونے والا تنازعہ اب شیعہ سنی تنازعہ کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کی وجہ سے ایک ارب مسلمان کسی بھی وقت خانہ جنگی جیسے حالات کا شکار ہو سکتے ہیں
شیخ حسن شہیتہ جو کہ مصر کے ایک مشہور شیعہ شخصیت تھے ان کو سلفی دہشت گردوں نے ہجوم کی صورت میں حملہ کر کے شہید کیا اور ان کے گھر کو بھی آگ لگا دی – ابتدائی میڈیکل رپورٹس کے مطابق ان کے گلہ کسی تیز دھار آلے سے کاٹا گیا تھا اور اس کے علاوہ سر پر بھی شدید چوٹیں آہیں تھی – انٹرنیٹ پی گردش کرنے والی ایک وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چند افراد انھیں کس طرح تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ایک ہجوم کھڑا دیکھ رہا ہے جس میں عورتیں بھی شامل تھیں
مصری صدر مورسی نے انتہا پسند سلفیوں سے اپنے مخالفین کی طرف سے ہونے والے احتجاج کے خلاف جو امداد طلب کی تھی اس کے نتیجے میں یہ حالات متوقعہ تھے – تیس جون سے شروع ہونے مورسی کے خلاف احتجاج میں مورسی کو اپنی حمایت کے لئے انتہا پسند سلفیوں کی حمایت کی ضرورت تھی جس کے نتیجے میں سلفیوں کو شیعہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کی کھلی چھٹی دے دی گیی
حمزہ برکات جنہوں نے نہایت بہادری کا ثبوت دیتے ہوے نہ صرف یہ وڈیو بنائی بلکہ اس کو انٹرنیٹ پہ بھی اپلوڈ کر دیا جس سے دنیا نے دیکھا کہ وہاں ہوا کیا تھا اگر حمزہ برکات اس بہادری کا مظاہرہ نہ کرتے تو دنیا کو کبھی بھی اس واقعہ کی سنگینی کا احساس نہ ہو سکتا -اسی طرح بغداد میں نہ ختم ہونے والے دھماکوں کا سلسلہ جس میں پچھلے سوموار کو بیالیس افراد ان دھماکوں کا شکار ہو کر موت کا شکار ہوگے ، اپریل سے لے اب تک دو ہزار افراد ان دھماکوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور ان دھماکوں کا شکار شیعہ افراد اور شیعہ آبادی بنے ہیں
پاکستان میں صورت حال اس سے زیادہ سنگین ہے جہاں انتہا پسند تکفیری تقریباً پاکستانی ریاست اور قانون کو روندھ چکے ہیں ، آے روز شیعہ آبادی پر ہونے والے حملے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں – چند روز قبل ہائی کورٹ کے جج مقبول باقر رضوی پر ہونے والا حملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے – جس میں ایک شیعہ جج مقبول باقر کو حملے کا نشانہ بنایا گیا جس میں وہ شدید زخمی ہوے اور ان کے گارڈز شہید ہوگے – ان پر حملے کی ایک بڑی وجہ دہشت گردوں کے خلاف ان کے سخت فیصلے تھے – تحریک طالبان کے ترجمان نے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوے کہا کہ مقبول باقر پر حملہ ان کے مجاہدین اور طالبان کے خلاف کے جانے والے فیصلوں کا رد عمل تھا
پچھلے ہفتے ہی پیرا ملٹری کی وردیوں میں ملبوس دہشت گردوں نے چین ، روس ، نیپال سے تعلق رکھنے والے کوہ پیماؤں کو نانگا پربت پر حملہ کر کے قتل کر ڈالا ، تحریک طالبان نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی اور یہ دعوہ کیا کہ ان کا یہ حملہ ولی الرحمان محسود پر ہونے والے ڈرون حملے کا رد عمل تھا ، اس سے پہلے بھی کیی دفعہ گلگت بلتستان جانے والے شیعہ مسافروں پر لشکر جھنگوی اور طالبان کی جانب سے حملے ہو چکے ہیں جن میں حملہ اوروں نے پیرا ملٹری فورسز کی وردی میں ملبوس ہو کر شیعہ مسافروں کو بسوں سے شناخت کر کے اتار کر شہید کیا
اسی طرح شام میں جاری خانہ جنگی کے نتیجہ میں اب تک اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق ایک لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں ، عرب سپرنگ کے نتیجہ میں آمریتوں کے خلاف شروع ہونے والی تحریک جس کو شام میں بھی ویسا ہی سمجھا جا رہا تھا ویسے بلکل نہیں ہے – دو ہزار گیارہ میں مظاہرین کے خلاف حکومت کے اقدامات کے بعد پوری عرب دنیا میں اس تنازعہ کو شیعہ سنی تنازعہ کی شکل دے دی گیی اور سلفی جنگجو پوری دنیا سے شام کی حکومت کے خلاف لڑنے کو پہنچ گیے – جس سے تشدد کے واقعیت میں بہت تیزی آگیی ہے اور شام ایک آگ اور خون کا طوفان میں گھرتا چلا جا رہا ہے
شام کی طرح عراق بھی فرقہ واریت کی آگ میں جل رہا ہے – ہر روز ہونے والے
دھماکوں میں ہزاروں لوگ اپنی جان سے جا چکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے – پاکستان ، عراق ، شام ، بحرین میں ہونے والے ایسے واقعیات نے مسلمانوں کو صدیوں پرانے جھگڑوں میں ایک بار پھر سے الجھا دیا ہے جس کے نتیجہ میں سپاہ صحابہ ، طالبان ، لشکر جھنگوی ، القاعدہ جیسی تنظیموں کو اپنی جگا بنانے کا موقعہ مل گیا ہے – اگر مذاکرات کے نتیجہ میں طالبان اور القاعدہ نے مغربی ممالک کے خلاف اپنے دہشت گردی روک بھی دی پھر بھی شیعہ مسلمان ان کی دہشت گردی کا نشانہ بنتے رہے گے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button