مضامین

حماس اور حزب اللہ اسلام کے دو بازو

hamas hizbullaحماس اور حزب اللہ اسلام کے دو بازوئوں کی مانند ہیں، جو عالم اسلام بلکہ عالم انسانیت کے مشترک مسئلے ”فلسطین” کی آزادی، انسانیت اور اسلام کے دشمن اسرائیل کی نابودی کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ حماس کی تاسیس اور حزب اللہ کی تاسیس میں بھی کچھ زیادہ عرصے کا فرق موجود نہیں، دونوں اسلامی مزاحمتی تنظیموں کے مقاصد بھی مشترکہ ہیں۔ مغربی استعمار نے ہمیشہ حماس اور حزب اللہ کے درمیان بہتر تعلقات کو توڑنے اور ان دونوں مجاہد گروہوں کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کے لئے جس اوچھے ہتھکنڈے کو استعمال کیا ہے وہ فرقہ واریت ہے، یعنی مغربی استعمار نے ہمیشہ اس بات کی ترویج کی ہے کہ حماس جو کہ فلسطین کے لوگوں پر مشتمل ہے اسے سنی مسلمان کے القابات سے نوازا جاتا رہا ہے جبکہ اسی طرح حزب اللہ جو کہ لبنان میں موجود ہے اور لبنان پر اسرائیل غاصبانہ قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کی بانی ہے, کو ایک شیعہ مسلمان کے القابات سے نوازا گیا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ حماس میں کام کرنے والے تمام مجاہدین اور قیادت اہلسنت مسلمانوں پر ہی مشتمل ہے اور حزب اللہ کی قیادت اور مجاہدین شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان دونوں مزاحمتی گروہوں نے آپس میں ایک دوسرے کے خلاف اسلحہ استعمال کیا ہے؟ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا، کیونکہ دونوں کا مشترکہ دشمن غاصب اسرائیل ہے اور دونوں کا مقصد مظلوم فلسطینیوں کی مدد و نصرت اور قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی ہے, جس کے لئے حماس اور حزب اللہ کے مجاہدین دن رات انتھک محنت اور جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔

حماس اور حزب اللہ کی مشترکہ جدوجہد کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ جب کبھی بھی امریکی فتنے اور غاصب اسرائیلی دشمن نے مظلوم فلسطینیوں پر جارحیت کا آغاز کیا ہے یا فلسطینیوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے ہیں تو ہمیں حماس اور حزب اللہ متحد ہو کر غاصب اسرائیلی دشمن کے خلاف محاذ جنگ پر نظر آتے ہیں۔ تازہ ترین مثالوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ2006ء میں جب فلسطین میں ہونے والے انتخابات کے بعد حماس کی حکومت قائم ہونے لگی تو غاصب اسرائیلی دشمن اس بات کو قبول نہ کرسکا اور بالآخر فلسطینیوں پر زمینی اور ہوائی حملے شروع کر دیئے یعنی ایک نا ختم ہونے والی جنگ چھیڑ دی، اس جنگ میں براہ راست حماس اسرائیل کے نشانے پر تھی اور مغربی استعمار یورپ اور امریکہ چاہتے تھے کہ اسرائیل کے ہاتھوں حماس کو نابود کر دیا جائے، تاکہ مزاحمت کا ایک باب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے، لیکن نتائج ان کی توقعات کے بالکل ہی بر عکس نکلے اور حماس نے مزاحمت کی اور اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا کر شکست سے دوچار کر دیا، جہاں اس لڑائی میں حماس براہ راست اسرائیلی دشمن سے لڑائی میں مصروف عمل تھی، وہاں حزب اللہ بھی حماس اور فلسطینیوں کی مدد کرنے میں پیچھے نہ رہی حتیٰ کہ حزب اللہ کے مجاہدین نے خفیہ آپریشنز کے ذریعے اسلحے کی بڑی کھیپ غزہ تک پہنچانے میں ناقابل تسخیر کردار ادا کرکے پوری دنیا کو دنگ کر دیا۔

اسی طرح حزب اللہ کی طرف سے ایک مرتبہ پھر یہی کارنامہ ایسے وقت میں دیکھنے میں آیا کہ جب غاصب اسرائیلی دشمن نے فلسطینی علاقے غزہ پٹی کا محاصرہ کر لیا اور ایسے حالات میں ہمسایہ ممالک جس میں مصر اور اردن سرفہرست ہیں، نے بھی اپنی سرحدوں کو بند کر دیا، جس کے باعث غزہ میں غذا اور ادویات سمیت ضروریات زندگی کی اشیاء کی شدید قلت کے باعث بے پناہ مشکلات اور دشواریاں پیدا ہونا شروع ہوچکی تھیں، تاہم حزب اللہ ہی وہ مزاحمتی اسلامی تنظیم تھی کہ جس نے ایسے سنگین حالات میں بھی حماس کو تنہا نہ چھوڑا اور اسلحے کے ساتھ ساتھ خوراک و ادوایات کی بڑی کھیپیں بھی خفیہ سرنگوں اور خصوصی آپریشنز کے ذریعے پہنچانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔
غزہ جو کہ غاصب اسرائیل کے محاصرے میں رہا اور تقریباً چار سال سے زائد کا عرصہ بیت جانے کے بعد بھی محاصرہ ختم نہ ہوسکا، لیکن حزب اللہ کی جانب سے فلسطینیوں کے لئے امداد کا سلسلہ جاری رہا اور آج بھی جاری ہے، اسی طرح لبنان میں مقیم وہ فلسطینی جو ہجرت کرکے لبنان آئے تھے، ان کو بھی وقتاً فوقتاً حزب اللہ کی جانب سے امداد جاری رہتی ہے۔

حال ہی میں مغربی استعمار اور مغرب کے نمک خوار عرب حکومتوں کی جانب سے ایک منفی پراپیگنڈا دیکھنے میں آیا تھا کہ جس میں کہا جا رہا تھا کہ ایران اور حزب اللہ نے حماس کو تنہا چھوڑ دیا ہے اور اسی طرح ایک اور خبر بھی مغربی نمک خوار عرب میڈیا پر نشر کر دی گئی، جس میں کہا گیا کہ حزب اللہ نے حماس کو لبنان سے نکل جانے کا حکم جاری کر دیا ہے، لیکن اس جھوٹی خبر کی کمر اس وقت ٹوٹ گئی جب خود لبنان میں موجود حماس کے نمائندے علی البرکہ نے اس جھوٹی خبر کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے من گھڑت اور اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ اور حماس کے درمیان دراڑ ڈالنے کے مترادف قرار دیا۔

یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ عربوں نے ہمیشہ ہی اس بات کی کوشش کی ہے کہ کسی طرح حزب اللہ اور حماس تعلقات اور ایران اور حماس تعلقات میں خرابی پیدا کی جائے۔ حد تو یہ ہے کہ یہی امریکی نمک خوار عرب ممالک فلسطینیوں کی مدد کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی مدد نہیں کرنے دیتے۔ جب فلسطین میں حماس کی نئی حکومت قائم ہوئی ت
و یہی امریکی نم خوار عرب ریاستیں تھیں کہ جنہوں نے فلسطینی وزیراعظم اسماعیل ہنیہ پر دبائو ڈالا تھا کہ وہ ایران کا دورہ نہ کریں اور دوسری طرف انہی مسلم امہ کے غداروں نے فلسطینی وزیراعظم کو کسی عرب ملک کے دورے کی بھی دعوت تک نہ دی تھی، لیکن یہ ایران تھا کہ جس نے سب سے پہلے فلسطینی وزیراعظم کا شایان شان استقبال کیا اور ان کو مالی معاونت کے ساتھ ایران سے رخصت کیا۔ اسی طرح امریکی ایجنٹ عرب ممالک کی کوشش رہی ہے کہ کسی طرح حزب اللہ اور حماس کے درمیان تعلقات کو خراب کیا جائے۔

خصوصاً گذشتہ دو سال سے کہ جب سے شام میں امریکی و اسرائیلی ایجنٹ دہشت گرد معصوم اور نہتے شامیوں کا قتل عام کر رہے ہیں اور اس کے بعد سے اب تک یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ حماس اور حزب اللہ کو جدا کر دیا جائے اور ان کے درمیان تقسیم پیدا کی جائے، تاکہ شام کو غیر مستحکم کیا جائے اور خطے میں اسرائیلی مفادات کا تحفظ کیا جائے یا تو یہ امریکی نمک خوار عرب ممالک نادان ہیں یا پھر بہت زیادہ سمجھدار دکھائی دیتے ہیں کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ اگر شام میں لڑنے والے دہشت گردوں نے اپنے اپنے ممالک واپسی کا رخ کر لیا تو پھر ان تمام عرب ریاستوں کا امن بھی خطرے میں پڑسکتا ہے۔ لہذٰا یہ عرب ریاستیں چاہتی ہیں کہ یہ دہشت گرد شام میں لڑتے رہیں اور شام حکومت کو غیر مستحکم کریں، اگر یہ کامیاب ہوئے تو ٹھیک ہے ورنہ بالآخر یہ مارے جائیں گے، دونوں ہی صورتوں میں ان عرب ریاستوں کو فائدہ ہوگا۔ بہرحال شام کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے بعد اسلام دشمن قوتیں اور ان کے چند زرخرید غلام عرب ریاستیں کوشش کر رہی ہیں کہ کسی طرح حماس اور حزب اللہ کے تعلقات کو خراب کر دیں، تاکہ خطے میں فرقہ واریت کی آگ کو ہوا دی جائے اور پھر یہ آگ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر جلا کر خاکستر کر دے۔

دوسری جانب حماس کی ایک اعلٰی اور مرکزی قیادت ڈاکٹر محمود الزھار نے کسی نامعلوم مقام سے لبنانی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ حماس اور حزب اللہ کے درمیان بہت اچھے تعلقات قائم ہیں اور جو قوتیں ان تعلقات کے درمیان حائل ہونا چاہتی ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو پائیں گی۔ ڈاکٹر محمود الزھار جو کہ خود ایک اعلٰی درجے کے مجاہدین میں شمار ہوتے ہیں اور غزہ میں مقیم ہیں اور آپ کے دو فرزندوں نے آزادیٔ فلسطین کی جدوجہد میں جام شہادت بھی نوش کیا ہے۔ ڈاکٹر محمود الزھار کا کہنا ہے کہ شام میں بگڑتی ہوئی صورتحال کا ذمہ دار امریکہ اور اسرائیل ہیں اور حماس کے ایران سمیت حزب اللہ اور دیگر قوتوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شام کے حوالے حماس کا موقف پہلے دن سے بہت واضح رہا ہے ہم کسی ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے، لیکن وہاں پر موجود دہشت گردوں کی کارروائیوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں شام حکومت کا مستحکم ہونا مزاحمتی گروہوں کے لئے بہتر ہے، جبکہ حماس حزب اللہ اور ایران سمیت ترکی اور دیگر ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنا چاہتی ہے۔

ڈاکٹر محمود الزھار نے واضح طور پر کہا ہے کہ حماس شام میں غیر ملکی اور مغربی مداخلت کی سخت مخالف ہے اور حماس یہ سمجھتی ہے کہ شام کی صورتحال کو بگاڑنے اور دہشت گردوں کی مدد کرنے میں عالمی دہشت گرد امریکہ او ر اسرائیل براہ راست ملوث ہیں، اگر شام غیر مستحکم ہوتا ہے تو مستقبل میں تحریک آزادیٔ فلسطین کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ڈاکٹر محمود الزھار نے کہا ہے کہ ہمارا موقف عرب ممالک اور بالخصوص حزب اللہ کے موقف کے ساتھ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مستحکم شام آزادی فلسطین کا ضامن ہے نہ کہ ایک غیر مستحکم شام۔ خلاصہ یہ ہے کہ شام کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے امریکہ اور اسرائیل فائدہ اٹھا کر تحریک آزادی فلسطین کو نابود کرنا چاہتے ہیں، تاہم حماس اور حزب اللہ کے درمیان قائم ہم آہنگی اور محبت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ حماس اور حزب اللہ اسلام کے دو بازو ہیں جو اسلام کی سربلندی اور فلسطین و قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کے تک جدوجہد کرتے رہیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button