پاراچنار دھماکوں کی حقیقت
سورج تقریباً ڈھل چکا تھا۔ چھ بجنے کو تھے، کہ ایک دھماکہ ہوگیا، یہ پہلا دھماکہ تھا، جسکے دو یا تین منٹ بعد دوسرا دھاکہ بھی ہوگیا۔ پہلا دھماکہ پنجابی بازار اور شنگک روڈ کے سنگم پر ناصبیوں کی مسجد کے مینار کے قریب ہوا۔ دوسرا دھماکہ سکول روڈ میں زیڑان پک اپ اسٹینڈ سے باہر تھوڑا سا مشرق کی جانب ہوا۔ جس میں تازہ ترین اطلاع کے مطابق 62 افراد شہید جبکہ 100 سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں، زخمیوں می 20 کی حالت تشویش ناک ہے۔
فوج کی نگرانی میں پاراچنار میں دھماکوں کی تفصیل
2007ء کے فرقہ ورانہ فسادات کے بعد پاراچنار کی سکیورٹی مقامی جوانوں کے ہاتھ میں تھی، لہذا جب تک یہ ذمہ داری مقامی افراد کے پاس تھی، کوئی دھاکہ نہیں ہوا تھا۔ لیکن مقامی انتظامیہ نے بعض افراد کے تعاون سے مقامی جواںوں سے سکیورٹی کا چارج زبردستی واپس لے لیا۔ جس کے بعد اب تک کل چار دھماکے ہوچکے ہیں، اور یہ سب دھماکے ایسے مقامات پر ہوئے ہیں جہاں تک پہنچنے سے پہلے تقریباً چار پانچ مرتبہ چیکنگ سے گزرنا پڑتا ہے۔ فوج کی نگرانی میں پاراچنار شہر میں پہلا دھماکہ فروری 2012ء میں مذکورہ مسجد سے چالیس پچاس میٹر کے فاصلے پر کرمی بازار میں ہوا تھا۔ جس میں 30 افراد شہید اور اتنے ہی زخمی ہوئے تھے۔ لیکن بعد میں احتجاجی جلوس پر حکومتی کارندوں کی فائرنگ کی وجہ سے مزید 40 افراد لقمہ اجل بنے جبکہ 50 سے زائد زخمی ہوگئے۔
جبکہ دوسرا دھماکہ کشمیر چوک کے قریب ہوا تھا۔ جس میں انوکھی بات یہ تھی کہ دھماکہ جس گاڑی میں ہوا تھا وہ پولیس کی گاڑی تھی، کیونکہ دھماکے کے آثار سے معلوم ہو رہا تھا کہ دھماکہ پولیس کی گاڑی میں ہوا ہے، جو مکمل طور پر تباہ ہوچکی تھی، اور یہ تجربے کی بات ہے کہ جب مواد گاڑی کے اندر پھٹے تو اسکا انجن اور دوسرے پرزے دور دور تک بکھرتے ہیں، یہی اس گاڑی کے ساتھ بھی ہوا تھا، جبکہ اس سے بھی دلچسپ بات یہ کہ پٹرولنگ پولیس پارٹی مکمل طور پر شہادت سے محروم ہوگئی تھی۔ چھ سات پولیس اہلکار اور انکے کمانڈر دھماکے سے پہلے ہی گاڑی کو خیرباد کہہ کر کہیں دور چلے گئے تھے اور کچھ دیر کے بعد وقوعہ پر پہنچے۔ اسے اتفاق ہی سمجھیں یا کچھ اور، بعض لوگ انکی تاویل کچھ اور کرتے ہیں۔
گذشتہ روز 26 جولائی کو اسی بازار میں یکے بعد دیگرے دو اور دھماکے ہوئے، جن کے متعلق بڑے شکوک و شبہات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔
دھماکے کا منصوبہ:
دھماکے سے دو تین روز قبل یہ افواہ گشت کر رہی تھی کہ دھماکہ ہونے والا ہے۔ جمعہ کے دن تحریک حسینی کے صدر مولانا منیر حسین نے مدرسہ آیۃ اللہ خامنہ ای میں اجتماع سے خطاب کے دوران کہا کہ جو افواہ چل رہی ہے وہ یا تو عوام کو ڈرانے کے لئے ہے کہ عوام اجتماعات، مجالس امام حسین اور بالخصوص آنے والے یوم قدس کے جلوس میں شرکت سے گریز کریں یا پھر حکومت کو ان تمام باتوں کا پوری طرح علم ہے، اور یہ ان دشمنان انسانیت کے ساتھ مکمل طور پر ملوث ہے۔
جمعہ کا دن ختم ہوا، شام چھ بجے دو دھماکے ہوگئے، پہلے دھماکے کی جگہ پہنچنے کے لئے ایک کیمرہ مین شریف حسین کیمرہ آن کئے ہوئے آگے جا رہا تھا کہ اسکی دکان سے 30 میٹر کے فاصلے پر دوسرا دھماکہ ہوگیا۔ لہذا دھماکے کی لائیو ریکارڈنگ ہوچکی ہے۔ جبکہ دوسرے خودکش حملہ آور کا سر بھی بالکل سالم ہے، جسے پہلے حکومتی اہلکاروں نے تحویل میں لیا تھا، لیکن بعض جذباتی جوانوں نے ان سے سر چھین لیا جو تادم تحریر ایجنسی ھیڈ کوارٹر ہسپتال پاراچنار میں پڑا ہے۔ جس کی مکمل ویڈیو ریکارڈنگ بھی موجود ہے۔
سکول روڈ میں ہونے والے دھماکے کے وقت ایک نوجوان قریب ہونے کے باوجود بال بال بچ گیا ہے، صرف دھماکے کی حرارت سے اسکے کپڑے اور بال جل گئے ہیں، اس عینی شاہد کے مطابق سترہ اٹھارہ سالہ ایک جوان نے جیسے ہی ہاتھ بلند کرکے ایک مرتبہ نعرہ تکبیر بلند کیا، تو زیڑان کے ایک غریب نوخیز جوان نے فوری طور پر آگے بڑھ کر اسے دبوچ لیا، لیکن اسی دوران دھماکہ ہوگیا۔ مذکورہ جوان کی لاش بری طرح مسخ ہوگئی تھی۔
بعض اہم سرکاری عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم نے یہ اطلاع مختلف تنظیموں کو پہلے ہی دیدی تھی کہ ایجنسیوں کی گاڑی میں خودکش حملہ آوروں کو پھرایا جارہا ہے، انکا مزید کہنا تھا کہ دونوں خودکش بچے جمعہ کے دن دس بجے آئی ایس آئی کی سفید گاڑی میں تکفیریوں کی مسجد لائے گئے تھے۔ جس میں چھ سال سے صرف فوجی اہلکار رہ رہے ہیں اور گذشتہ دھماکے بھی مبینہ طور پر اسی مسجد سے ہینڈل کئے گئے تھے۔
عینی شاہدین کے مطابق ان دونوں خودکش بچوں کو بھی مسجد میں موجود فوجیوں نے مکمل رہنمائی فراہم کی تھی، پنجابی بازار جہاں پہلا دھماکہ ہوا ہے، مسجد کے گیٹ سے ایک منٹ کے فاصلے پر واقع ہے، جبکہ سکول روڈ کا مذکورہ مقام مسجد سے تین چار منٹ کے فاصلے پر واقع ہے، جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خودکش حملہ آورں کو ایک ساتھ مسجد سے روانہ کیا گیا تھا۔ جو پہلے ہہنچ گیا اس نے پہلا دھماکہ کیا جبکہ دوسرے کا فاصلہ کچھ زیادہ تھا۔ وہ تین چار منٹ بعد پہنچ کر دھماکہ کر گیا۔
ہسپتال میں پڑے سر کی وضع قطع کا مکمل مشاہدہ کرنے کے بعد ایک عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسی حلیے کے حامل شخص کو میں نے دھماکے سے صرف دو تین منٹ
پہلے کرمی بازار سے گزرتے دیکھا تھا، جو مذکورہ مسجد کی جانب سے سکول روڈ کی طرف جا رہا تھا۔ واضح رہے کہ مذکورہ مسجد سے سکول روڈ جانے کی گزرگاہ کرمی بازار ہی ہے۔
دھماکے کا ردعمل
دھماکے کے دوسرے روز مدرسہ آیۃ اللہ خامنہ ای میں علامہ عابد حسینی کی سربراہی میں تحریک حسینی کے زیراھتمام مختلف تنظیموں کا اجلاس ہوا، جس میں تحریک حسینی کے علاوہ مجلس علمائے اہلبیت (ع)، سلمان پاک ٹرسٹ، انصار الحسین اور دیگر چھوٹی بڑی تنظیموں نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں ان دھماکوں کی شدید مذمت کی گئی اور ان دھماکوں کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر ڈالی گئی۔ علامہ عابد حسینی نے کہا کہ جب تک پاراچنار کی سکیورٹی فوج کے ہاتھوں میں ہے، نیز جب تک فتنے کی جڑ تکفیریوں کی مسجد میں فوج اور فوجی ادارے موجود ہیں، ہم اس طرح کے دھماکوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مسجد کو فوری طور پر خالی کر دیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاراچنار سٹی میں فوجیوں اور ایف سی کے گشت اور شاپنگ کو مکمل طور پر بند کیا جائے۔ ورنہ ہم کسی بھی کارروائی پر مجبور ہونگے، انہوں نے کہا کہ بصورت دیگر ہم جوانوں کے مسلح دستے تشکیل دیں گے۔ جو بازار میں گشت کریں گے اور مشکوک گاڑی اور شخص کو فوری طور پر اپنی حراست میں لیکر تفتیش کریں گے۔ اجلاس میں دھرنے کی تجویز بھی زیر غور رہی، تاہم اکثر لوگوں نے دھرنوں کو بے مقصد قرار دیکر عملی قدم اٹھانے کی تجاویز پیش کیں۔ اگلے روز ایک بار پھر میٹنگ ہوگی، جس میں حتمی فیصلے کئے جائیں گے۔ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بازار میں غیر طوری قبائل اور فوجیوں کی آمد اور شاپنگ پر پابندی عائد کی جائے۔