مضامین

طالبان دہشت گرد، امریکہ کے پروردہ اور مغرب کے حمایت یافتہ

pakistan talibanپاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخواه کے مرکز پشاور کی گنجان آبادی والے علاقے میں ایک سو تیس سالہ قدیمی چرچ مبینہ طور پر دو خودکش حملہ آوروں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ دسیوں بے گناہ انسان خاک وخوں میں غلطاں اور بیسیوں افراد کے جسم کے چیتھڑے بکھر گئے جن میں مختلف سن وسال کے افراد خصوصا بچے اور عورتیں شامل ہیں۔
مارنے والے مسلمان اور مرنے والے عیسائی اور زخمیوں کو نجات دینے والے امدادی کارکن مسلمان۔ بڑی عجیب و غریب صورتحال ہے۔ گذشتہ دنوں مملکت شام کے حوالے سے خبر ملی تھی کہ وہاں القاعدہ سے وابستہ ایک گروہ نے ایک عیسائی بستی میں گھس کر تقریبا 130 افراد کو جن میں خواتین اور معصوم بچے بھی شامل تھے، نہایت بے دردی کے ساتھ قتل کردیا۔
یہ درندہ صفت لوگ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور کچھ دوسرے مسلمان نما لوگ ان کے ان کاموں کی توجیہ پیش کرتے ہیں۔ طالبان کے طرف دار بعض انتہائی معروف اور دیندار حضرات سے کہتے سنا ہے کہ یہ بم دھماکے اور خودکش حملے ردعمل ہے۔ عذر بدتر از گناہ کے مصداق یہ لوگ بتائیں کہ امریکی ڈرون حملوں، نیٹو کی بمباری اور پاکستانی فورسزکی کاروائی کا انتقام پاکستان کے عام شہریوں سے لینا کہاں کا انصاف ہے۔ گلوں میں قران لٹکانے والے طالبان کس جواز کے تحت لوگوں کے گلے کاٹ رہے ہیں۔
طالبان کے بارے میں یہ بات سب پر عیاں ہوچکی ہے کہ طالبان کو بنانے والا امریکہ ہے اور امریکہ نے ہی اس کو پروان چڑھایا اور اپنے خاص مقاصد کے لئے ان سے فائدہ اٹھایا۔لیکن یہ بات سمجھنے والی ہے کہ جس زمانے میں طالبان کو وجود بخشاگیا اس وقت امریکہ، پاکستان، سعودی عرب اور بعض افغان جہادی قوتوں کے مفادات مشترک اور ایک تھے چنانچہ سب نے اپنے مفادات کے لئے اس نو ظہور یافتہ جماعت کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کیا۔
طالبان کے نام پر افغانستان کی سرنوشت مسلط ہونے والے افراد بھی خود کو مکمل طور با اختیار اور ملک و ملت کا پاسباں تصور کرتے تھے لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ تضادات اور اختلافات کو ایک خاص مدت تک کے لئے تو نظر انداز کیا جاسکتا ہے لیکن طویل المعیاد عرصے تک نظر انداز کرنے کے لئے ایک محکم اور مضبوط محرک کا ہونا ضروری ہے جس کا افغانستان کے تناظر میں دور دور تک شائبہ تک نہ تھا۔
پاکستان طالبان کے ذریعے افغانستان میں ہندوستان کے اثر رسوخ کو ختم کرنے، اپنے اثر رسوخ کو بڑھانے اور وسطی ایشیا کے ملکوں کے لئے اپنے سامان تجارت کے لۓ راستہ چاہتا تھا۔ سعودی عرب ایران کے اثرو رسوخ سے خوفزدہ تھا اور نہیں چاهتا تھا کہ افغانستان میں ایران کے طرز کی انقلابی اور جمہوری حکومت تشکیل پائے۔ متحدہ عرب امارات، کویت، قطر اور دیگر رجعت پسند عرب ممالک اپنی امریکہ نوازی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے طالبان کی حمایت کرنے پر مجبور تھے۔ طالبان کو اپنے بے اختیار ہونے کا احساس اس وقت ہوا جب ان کو کابل کی بجائے قندھار میں امارت اسلامی کا دارالخلافہ بنانا پڑا۔
طالبان، پاکستان کے مدارس اور مساجد سے نکلنے والے ایسے نوجوان تھے کہ جن کی اکثریت دنیاوی تعلیم تربیت سے بے بہرہ تھی اور دینی تعلیم پر بھی ان کو کوئی خاص عبور حاصل نہیں تھا۔ ملا محمد عمر نامی ایک 25 26 سال کا نوجوان طالبان کا کمانڈر تھا جس کا جہادی تجربہ ایک کلاشنکوف سے زیادہ نہ تھا لہذا اس کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے میں امریکہ کو زیادہ دشواری کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔
امریکہ نے 9/11 کے مشکوک واقعے کے بعد طالبان کو اقتدار سے بے دخل کردیا اور ساری دنیا میں ان کو پھیلادیا اور اب جہاں کہیں بھی ایک چھوٹا سا واقعہ رونما ہوتا ہے اس کا تعلق طالبان یا القاعدہ سے جوڑکر اسلام کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حال حاضر میں اسلام کی حقیقی تعلیمات سے بے بہرہ کچھ نام نہاد مفتی اپنے فتووں سے دہشت گردی کو جہاد قرار دے کر امریکہ کی معاونت کر رہے ہیں۔
عالم اسلام خصوصا پاکستان کے تناظر میں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طالبان یا القاعدہ کسی فرد یا افراد کا نام نہیں ہے کہ ان سے مذاکرات کرکے دہشت گردی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ ان کو اسلام دشمن طاقتوں کی اسٹراٹیجی سمجھ کر نمٹنے کی ضرورت ہے۔
افغان طالبان، پاکستانی طالبان، ازبک طالبان، چچن طالبان، پنجابی طالبان اور اب یورپی طالبان کا نام بھی سنے میں آرہا ہے۔ یہ سب طالبانزم کے ذیل میں آتے ہیں کہ جن کا باعث و بانی امریکہ ہے اور اس نظریئے سے نجات پانے کے لئے مذاکرات طالبان سے نہیں بلکہ امریکہ سے کرنے کی ضرورت ہے۔ شام کے مسائل کو دیکھتے ہوئے دنیا کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ امریکہ ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پردہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔
البتہ سعودی عرب کی معاونت کے بغیر امریکہ طالبانزم کو فروغ ںہیں دے سکتا لہذا پاکستان کو اس معاملے میں اپنے قومی مفادات اور ملی یکجہتی کی خاطر ریاض پر بھی دباؤ ڈالنا چاہیے۔ طالبان کے ساتھ یا باالفا ظ دیگر دہشت گردوں کے ساتھ جن کے ہاتھ کہنیوں تک بے گناہ انسانوں کے خون سے رنگین ہیں، مذاکرات بے معنی ہیں البتہ پاکستان کے معصوم شہریوں کو طالبانزم سے بچانے اور ان کو اس گمراہ فکر سے دور رکھنے کے لئے قلیل المیعاد اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
پشاور میں چرچ میں ہونے والا خودکش حملہ جس میں مبینہ طور پر دو حملہ آور شریک تھے کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ پاکستان می
ں مسلسل اس قسم کے واقعات رونما ہوہے ہیں اور ساری دنیا میں پاکستان کی ساکھ تو متاثر ہو ہی رہی ہے اسلام کی نورانیت پر بھی حرف آرہا ہے۔ چرچ پر حملے کو لے کر ساری مغربی دنیا میں مہینوں پاکستان اور اسلام کے خلاف پرو پیگنڈا کیا جاتا رہا رہےگا اور عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف مغربی ممالک کی طرف سے ایک لہر چل پڑے گی، البتہ اس پروپیگنڈےکا پاکستانی حکام کے پاس ایک معقول جواب ہے کہ یہ دہشت گرد امریکہ کے پروردہ اور مغرب کے حمایت یافتہ ہیں کہ جنہیں ایک سازش کے تحت پاکستان پر مسلط کیا گیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button