مضامین

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جاۓ گا

holy_Quranامریکہ کے ایک انتہا پسند پادری کی جانب سے اشتعال دلاۓ جانے کے بعد گزشتہ گیارہ ستمبر کو امریکہ میں مختلف جگہوں پر آخری آسمانی کتاب قرآن کریم کو نذر آتش کیا گيا جس سے دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوۓ۔ یہ گھناؤنا اقدام انجام دینے والے اس بات سے غافل تھے کہ قرآن کریم کا نور ہر گز بجھایا نہیں جاسکتا ہے ۔ خدا تعالی نے سورۂ توبہ میں ارشاد فرمایا ہے:
” وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں جبکہ اللہ اس کے سوا کسی اور چيز سے راضی نہیں ہے کہ اپنے نور کو کمال تک پہنچائے، چاہے کافر  ناگواری محسوس کریں”۔
قرآن کریم آخری آسمانی کتاب ہے جو انسانوں کے لۓ ایک جامع لائحۂ عمل لے کر آئي ہے۔ تاکہ انسان سعادت کی چوٹیوں کو سر کرسکیں ۔ قرآن کریم ایک نورانی کتاب ہے ۔ جو ایک کشتی نجات کی مانند زندگی کی تلاطم خیز موجوں میں انسان کی ہدایت و رہنمائي کرتی ہے۔ قرآن مجید میں بیان شدہ تعلیمات اس قدر عظیم ہیں کہ صاحبان عقل اور دانشمند افراد ان کے سامنے سر تعظیم خم کردیتے ہیں۔ قرآن کریم میں بیان شدہ دلکش اور لطیف مطالب حقیقت کے متلاشی مفکرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالیتے ہیں اور ان کو معرفت کے چشموں سے سیراب کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں علم و معرفت کے خزانوں اور انسانی و اخلاقی اقدار پر مبنی سبق آموز داستانوں کو بہت ہی خوبصورت الفاظ اور دلچسپ پیراۓ میں ذکر کیا گيا ہے ۔ ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ خدا تعالی نے ہدایت کی آخری اور جامع ترین کتاب میں از حد خوبصورت الفاظ اور تعابیر کو عمدہ ترتیب دے کر ایک عظیم ادبی معجزے کو وجود بخشا ہے ۔ ایران کے ایک عظیم عالم دین اور مرجع تقلید آیت اللہ العظمی صافی گلپائیگانی کا کہنا ہے کہ قرآن کریم نے انسانی سماج کو حیات نو عطا کی ہے ۔ قرآن مجید کے بیان کردہ حقوق اس قدر اٹل اور مستحکم ہیں کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے منشور کا ان کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
حضرت علی ع نے قرآن کریم کے بارے میں فرمایا ہےکہ : خدا کی کتاب کو مضبوطی سے تھام لو کیونکہ یہ ایک بہت مضبوط رسی اور چمکتا ہوا نور ہے ۔ قرآن شفا عطا کرنے والی اور بابرکت دوا ہے ۔ یہ ایسا آب حیات ہے جو حق کے پیاسوں کی پیاس بجھاتا ہے۔ جو شخص بھی قرآن کا سہارا لیتا ہے قرآن اس کا تحفظ کرتا ہے ۔ اور جو بھی اس کا دامن تھامتا ہے قرآن اس کو نجات دیتا ہے”
قرآن کریم کے مستحکم قوانین اور اس کی عظیم براہین ایسی ہیں کہ کوئي بھی قرآن کریم میں تحریف نہیں کرسکا ہے۔ انسانوں نے قدیم زمانے سے ہی مختلف معاشروں میں بہت سے قوانین مدون کۓ اور بہت سے فکری اور اخلاقی نظام انسانیت کی ہدایت کے دعوے کے ساتھ وضع کۓ لیکن ان قوانین کا کوئي بھی مجموعہ زیادہ دیر تک اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکا اور ہمیشہ ترامیم کو ضروری سمجھا گيا اور عملی طور پر اس میں ترامیم کی گئيں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ تمام قوانین انسانوں کے بناۓ ہوۓ تھے اور ظاہر ہے کہ انسانوں کو امور کے تمام پہلوؤں سے آگاہی نہیں ہے اور نہ ہی انسان امور کے تمام پہلوؤں کا احاطہ رکھتے ہیں۔ جبکہ قرآن کریم خدا تعالی کا کلام اور ایک ابدی حقیقت ہے۔ ایک ایسی حقیقت جو وقت گزرنے کے ساتھ کہنہ اور پرانی نہیں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود قرآن کریم کے قوانین زندہ و پائندہ ہیں۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ ایسی عظیم کتاب کا نور اس کے خلاف شور مچانے اور چيخنے چلانے سے نہ صرف کم نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ نور زیادہ سے زیادہ افراد کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے ۔
خدا تعالی نے قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ خود اٹھایا ہے ۔ سورۂ حجر کی آيت نمبر نو میں ارشاد ہوتا ہے کہ ” بلاشبہ ہم نے اس قرآن کو اتارا ہے اور یقینا ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں "۔ سورۂ فصلت کی آیات نمبر اکتالیس اور بیالیس میں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ ” یقینا جن لوگوں نے اس قرآن کا انکار کیا جبکہ وہ ان کے پاس آیا حالانکہ وہ یقینا ایک باعزت کتاب ہے۔باطل کا اس کتاب کے پاس گزر نہیں، نہ اس کے سامنے سے اور نہ ا س کے پس پشت سے، کیونکہ یہ کتاب اس خدا کی طرف سے نازل کی گئی ہے جو حکمت والا اور تعریف کا سزاوار ہے”
تاریخ کے مختلف ادوار میں خدا تعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لۓ ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زیادہ انبیاۓ کرام ع کو بھیجا ۔ آج بھی دنیا میں ایسی مقدس کتابیں موجود ہیں جو انہی میں سے بعض انبیاۓ کرام ع سے تعلق رکھتی ہیں۔ حضرت ابراہیم ع کے صحیفے ، حضرت موسی ع کی توریت ، حضرت داؤد ع کی زبور اور حضرت عیسی ع کی لائي ہوئی انجیل جیسی کتابوں میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے زمانے میں انسانوں کی ہدایت کے سلسلے میں انتہائي مثبت کردار ادا کیا ۔ اسلام کی مقدس کتاب قرآن کریم نے عظیم ترین منشور ہدایت کی حیثیت سے اس بات کو صاف الفاظ میں بیان فرمایا ہےکہ اس کی تعلیمات بین الاقوامی ہیں جو اپنے سے پہلے تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتی ہیں۔
قرآن کریم نے آسمانی کتابوں میں سے سب سے زیادہ توریت اور انجیل کی جانب اشارہ کیا ہے ۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں ان دو کتابوں کا ذکر کیا گیا ہے اور حضرت موسی اور حضرت عیسی علیھماالسلام اور ان کے پیرووں کی داستانیں بیان کی گئي ہیں۔ قرآن کریم نے توریت اور انجیل کو ہدایت
اور نور کی کتابیں قرار دیا ہے اور مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ سابقہ انبیاء کی کتابوں پر ایمان لائيں ۔ اور خدا تعالی کی جانب سے بھیجے ہوۓ انبیاء کے درمیان کوئي فرق روا نہ رکھیں کیونکہ تمام انبیاء و مرسلین ع نے خالق وحدہ لاشریک کی جانب انسانوں کی رہنمائي کی ہے۔ اس سلسلے میں سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ایک سو چھتیس میں ارشاد ہوتا ہے : کہہ دو کہ ہم تو ایمان لائے ہیں اللہ پر اور اس پر جو ہماری طرف بھیجا گیا ہے۔اور اس پر جو ابراہیم ، اسماعیل ، اسحاق ، یعقوب اور اسباط پر اتاراگیا اور جو موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا گیا اور جو دوسرے انبیاء کو ان کے پروردگار کی طرف سے دیاگیا ہم ان میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے اور ہم اس کی بارگاہ میں سر تسلیم خم ہیں”
قرآن کریم کی اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ اگر دوسرے ادیان کے پیرو مسلمانوں کے خلاف کوئي ناروا اقدام انجام دیں تب بھی مسلمان اپنے لۓ یہ جائز نہیں جانتے ہیں کہ وہ مارے جانے والے افراد کے خون کا بدلہ لینے کے لۓ یہودیت اور مسیحیت کی بے حرمتی کریں اور توریت و انجیل کی شان میں کسی طرح کی گستاخی کریں۔
آیت اللہ صافی گلپائیگانی نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم کی بے حرمتی تمام انبیاۓ کرام ع خصوصا حضرت ابراہیم ، حضرت موسی اور حضرت عیسی علیھم السلام نیز دنیا کی پاکدامن ترین خاتون حضرت مریم علیھاالسلام کی بے حرمتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ قرآن کریم میں حضرت عیسی ع اور ان کی والدۂ گرامی حضرت مریم علیھاالسلام کی بہت تعریف کی گئي ہے۔
کلیسا کے حکام نے گیارھویں اور بارھویں صدی عیسوی میں بیت المقدس پر قبضہ کرنے کے لۓ صلیبی جنگیں چھیڑیں اور مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کا قتل عام کیا۔ اکیسویں صدی میں بھی امریکہ کے سابق صدر جارج بش اور اس کے ہم خیالوں نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو تباہ کر کے ایک بار پھر صلیبی جنگ کی بات کی اور دنیا کو ایک اور صلیبی جنگ کی دھمکی دی۔ اسی تناظر میں یورپ میں موجود انتہا پسند ٹولہ ادیان کے درمیان جنگ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ یہی ٹولہ ہے جو سب کی آنکھوں کے سامنے قرآن کریم کو پھاڑنے اور اسے نذر آتش کرنے کاگھناؤنا اقدام کرتا ہے۔ اس قسم کے افسوسناک واقعات ایسے وقت پیش آۓ ہیں جب یونیورسٹیوں کی سطح پر مسلمان اور مسیحی دانشمندوں کے درمیان ادیان اور تہذیبوں کی گفتگو اور مکالمے کی بات ہورہی ہے۔ ان تضادات سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یورپ میں امن و دوستی کے نعروں کے پس پردہ بعض انتہا پسند گروہ پوری شدت کے ساتھ اپنی مذموم سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے قرآن کریم کی شان میں گستاخی اور مسلمانوں کے توہین کۓ جانے کے بعد اپنے ایک پیغام میں اس اقدام کو ان مراکز کی ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا ہے جنہوں نے برسہا برس سے اسلام سے ڈرانے کی پالیسی اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھی ہے۔ اور جو مختلف طریقوں سے اسلام کو نقصان پہنچانے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں فرمایا ہےکہ سب کو یہ بات جان لینی چاہۓ کہ حالیہ واقعے کا کلیسا اور مسیحیت سے کوئي تعلق نہیں ہے اور چند پٹھو اور کٹھ پتلی پادریوں کے اقدام کو عیسائیوں اور ان کے مذہبی رہنماؤں کا اقدام نہیں سمجھنا چاہۓ۔ ہم مسلمان دوسرے ادیان کے سلسلے میں اس جیسا کوئي اقدام انجام نہیں دیں گے۔ اس سازش کو تیار کرنے والے احمق یہی چاہتے ہیں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان وسیع سطح پر جنگ کا آغاز ہو جبکہ قرآن کریم نے ہمیں اس کے برعکس حکم دیا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں مزید فرمایا ہے کہ قرآن مجید اور پیغمبر اکرم ص کی شان میں گستاخی کا واقعہ اپنی تمام تر تلخی کے باوجود ایک عظیم بشارت کا حامل ہے اور قرآن کریم کے درخشاں خورشید کے نور میں آۓ اضافہ ہی ہوگا۔ "
کسی شاعر نے قرآن کریم کی عظمت کو بیان کرتے ہوۓ کہا ہے
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جاۓ گا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button